حضرت اقدس جناب مفتی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
عرض ہے کہ نقاب نے زاہد کو مبلغ/400000 روپے دیے اس طور پر کہ زاہد نقاب کو ماہانہ جتنا نفع بنتاہے وہ دینے کا پابند ہوگا،تاہم منافع کا کوئی تعین نہیں کیا، اتفاقا تین ماہ بعد کاروبار میں نقصان ہوا زاہد نے نقاب کو بذریعہ گواہ اطلاع بھی کردی
اس درمیان زاہد نے تقریبا لگ بھگ 300000 روپے نقاب کو دے دیے ہیں،اب نقاب کا کہنا ہے کہ جو کچھ میں لے چکا ہوں وہ منافع ہے، جبکہ راس المال باقی ہے، زاہد کا کہنا ہے کہ میں شروع ہی میں نقصان اٹھا چکا ہوں، اس لئے میں نے جو رقم دی ہے وہ راس المال ہی ہے
اب شرعی طور پر اس کاحل کیا ہوگا ؟
اگر کاروبار صرف نقاب نامی شخص کے چار لاکھ روپے میں ہوا اور زاہد نامی شخص کی کوئی رقم اس میں شامل نہیں تھی اور نفع بھی متعین نہیں تھا تو پھر اگر کچھ نفع ہوا ہے تو وہ نفع اصل مال کے ساتھ نقاب کا ہوگا اور زاہد کو اجرت مثل ملے گی اور اگر نقصان ہوا اور زاہد نے (تعدی) زیادتی نہیں کی اور دو گواہوں کے ذریعے مال کے ہلاک ہونے کی خبر دی تو زاہد کے قول کا اعتبار ہوگا اور چار لاکھ میں جتنی رقم نقصان کے بعد بچ چکی ہے، وہ سب نقاب کی ہوگی اور زاہد کو اجرتِ مثل ملے گی۔
الھندیة:(287/4،ط:دارالفکر)*
(ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط.
*الھندیة:(288/4،ط:دارالفکر)*
(وأما) (حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك وإذا فسدت فهو أجير وإذا خالف فهو غاصب وإن أذن بعده ولو شرط الربح لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي.
*بدائع الصنائع:(218/4،ط:دارالکتب العلمیة)*
أما الإجارة الفاسدة، وهي التي فاتها شرط من شروط الصحة فحكمها الأصلي هو ثبوت الملك للمؤاجر في أجر المثل لا في المسمى بمقابلة استيفاء المنافع المملوكة ملكا فاسدا؛ لأن المؤاجر لم يرض باستيفاء المنافع إلا ببدل. ولا وجه إلى إيجاب المسمى لفساد التسمية فيجب أجر المثل، ولأن الموجب الأصلي في عقود المعاوضات هو القيمة؛ لأن مبناها على المعادلة، والقيمة هي العدل إلا أنها مجهولة؛ لأنها تعرف بالحزر والظن، وتختلف باختلاف المقومين، فيعدل منها إلى المسمى عند صحة التسمية، فإذا فسدت وجب المصير إلى الموجب الأصلي، وهو أجر المثل ههنا؛ لأنه قيمة المنافع المستوفاة.
*بدائع الصنائع:(218/4،ط:دارالکتب العلمیة)*
وأيهما أقام البينة يقضى ببينته؛ لأن الدعوى لا تقابل الحجة.
*الفقه الاسلامی وأدلته:(5 /3847،ط:دارالفکر)*
الأجير الخاص (وهو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل) كالخادم في المنزل والأجير في المحل، اتفق أئمة المذاهب وهم (الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة) على أنه لا يكون ضامنا العين التي تسلم إليه للعمل فيها؛ لأن يده يد أمانة.