دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو مریضوں کے لیے سیمپل دیتی ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ سیمپل ہبہ کے طور پر ہیں یا صرف مریضوں کے لیے، بعض اوقات ڈاکٹر یہ سیمپل میڈیکل اسٹور والوں کو فروخت کر دیتے ہیں اور اسٹور والے آگے بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح سیمپل کی خرید و فروخت کرنا شرعاً کیسا ہے؟
واضح رہے کہ اگر دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو یہ میڈیسن بطورِ ہبہ دیتی ہیں، یعنی مالک بنا کر دیتی ہیں تو ڈاکٹر اس دوا کا مالک ہے اور وہ اس میں ہر قسم کے تصرف کا مجاز ہے، چاہے وہ فروخت کرے یا مریض کو ہدیہ دے،اس صورت میں میڈیکل اسٹور والوں کا ڈاکٹر سے دوا خرید کر آگے فروخت کرنا جائز ہے۔
لیکن اگر کمپنیاں یہ دوا ڈاکٹروں کو بطورِ وکالت دیتی ہیں(صرف مریضوں کو مفت دینے کے لیے) تو ڈاکٹر اس دوا کے مالک نہیں ہوتے، بلکہ یہ ان کے پاس امانت ہے، اس صورت میں دوا بیچنا اور اسٹور والوں کا ڈاکٹروں سے چوری چھپے دوا خرید کر آگے فروخت کرنا جائز نہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں ہوگی۔
الدرالمختار:(6/200،ط:دارالفکر)* لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته إلا في مسائل مذكورة في الأشباه.
*الشامیة:(5/ 98،ط:دارالفکر)*
«وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لا يطيب له ولا للمشتري منه، بخلاف البيع الفاسد فإنه لا يطيب له لفساد عقده ويطيب للمشتري منه لصحة عقده. (قوله الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا (قوله ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئا؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه.
*الهندية:(4/ 396،ط:دارالفکر)*
قال أصحابنا جميعا: إذا وهب هبة وشرط فيها شرطا فاسدا فالهبة جائزة والشرط باطل كمن وهب لرجل أمة فاشترط عليه أن لا يبيعها أو شرط عليه أن يتخذها أم ولد أو أن يبيعها من فلان أو يردها عليه بعد شهر فالهبة جائزة وهذه الشروط كلها باطلة، كذا في السراج الوهاج.