اگر کوئی صاحبِ ترتیب شخص وتر ادا کیے بغیر سو گیا اور بیدار ہونے پر فجر کا وقت اس قدر تنگ پایا کہ وتر ادا کرنے کی صورت میں فجر کے فرض فوت ہونے کا اندیشہ تھا اور صرف اتنا وقت باقی تھا کہ فجر کی سنت اور فرض ادا کر سکے تو ایسی حالت میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ پوچھی گئی صورت میں صاحبِ ترتیب کے لیے فجر کی نماز کو مقدم کرنا لازم ہے، چنانچہ پہلے فجر کی سنت اور اس کے بعد فرض ادا کرے گا اور وتر کی نماز بعد میں قضا کرے گا،اس لیے کہ وقت کی تنگی کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔
الشامیة:(2/ 65،ط:دارالفکر)*
«الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء وقضاء لازم)،،،،،فلم يجز) تفريع على اللزوم (فجر من تذكر أنه لم يوتر) لوجوبه عنده (إلا) استثناء من اللزوم فلا يلزم الترتيب (إذا ضاق الوقت المستحب).
*ایضا:(2/ 66،ط:دارالفکر)*
(قوله إذا ضاق الوقت) أي عند الفوائت والوقتية، أما الفوائت بعضها مع بعض فليس لها وقت مخصوص حتى يقال يسقط ترتيبها بضيقه ط ولو لم يمكنه أداء الوقتية إلا مع التخفيف في قصر القراءة والأفعال يرتب ويقتصر على ما تجوز به الصلاة بحر عن المجتبى. وفي الفتح: ويعتبر الضيق عند الشروع، حتى لو شرع في الوقتية مع تذكر الفائتة، وأطال حتى ضاق لا يجوز إلا أن يقطعها ثم يشرع فيها، ولو شرع ناسيا والمسألة بحالها فتذكر عند ضيقه جازت.