کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بایع نے مشتری کو چار ہزار کلو لہسن دیا مشتری نے آدھے سے زیادہ قیمت بھی ادا کی مشتری نے بایع سے لہسن وصول کی اور راستے میں کسی کانٹے پر لہسن کو تولا اور اس کے بعد بایع کو فون کی کہ اس کا وزن کم ہے اب اس میں ایک سال گزر چکا ہے بایع بار بار پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں اور مشتری اب کہتا ہے کہ اس کا وزن کم تھا اور ابھی ریٹ بھی گر چکا ہے لہسن کا میں بقیہ پیسے نہیں دے سکتا اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
پوچھی گئی صورت میں اگر بائع(بیچنے والا) دعویٰ کرتا ہے کہ لہسن چار ہزار کلو پورا تھا تو اس پر لازم ہے کہ اس پر کوئی ثبوت یا گواہ پیش کرے اور اگر وہ گواہ پیش نہ کر سکا تو مشتری (خریدار) پر قسم لازم ہوگی، اگر مشتری قسم اٹھا لے کہ لہسن چار ہزار کلو سے کم تھا تو مشتری پر اس کے بقدر قیمت لازم ہوگی، لیکن اگر مشتری قسم سے انکار کر دے یا بائع ثبوت پیش کر دے تو دونوں صورتوں میں مشتری پر لہسن کی پوری قیمت لازم ہوگی۔
بہرحال اس میں بہتر یہ ہے کہ کسی انصاف پسند اور تجربہ کار شخص کو منصف بنا کر اس سے اپنا فیصلہ کروا لیا جائے ۔
*مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :(6/ 445)*
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ " رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
*الشامية :(4 / 542،ط: دارالفکر)*
"(وإن باع صبرةً على أنها مائة قفيز بمائة درهم وهي أقل أو أكثر أخذ) المشتري (الأقل بحصته) إن شاء (أو فسخ)؛ لتفرق الصفقة، وكذا كل مكيل أو موزون ليس في تبعيضه ضرر. (وما زاد للبائع) لوقوع العقد على قدر معين".