السلام علیکم مفتی صاحب !
ایک مسئلہ پوچھنا ہے میں آن لائن ریسلنگ کا کام کرتا ہوں، اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے
ہول سیلر ہمیں پراڈکٹ کی تصاویر اور ویڈیوز اور اس کی ڈیٹیل بھیجتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ آپ کو یہ اس قیمت پر ملے گی، پھر ہم اس کی مارکیٹنگ کر تے ہیں اور اپنے ریٹ پر کسٹمر کو دکھاتے ہیں، جب آرڈر آ جاتا ہے تو ہول سیلر کو بولتے ہیں کہ اس جگہ اس کو اتنی اماؤنٹ میں کیش آن ڈیلیوری کر دیں تو وہ ڈیلیوری کر کے جب اس کے پاس پیمنٹ آ جاتی ہے تو وہ اپنی مقررہ رقم رکھ کر ہمیں ہماری پیمنٹ بھیج دیتے ہیں۔
2۔ کبھی ہم ایڈوانس میں پیمنٹ دے کر بولتے ہیں کے یہ آئٹم اس جگہ ڈیلیور کر دیں۔
کیا شرعی طور پہ اس طرح کام کرنے میں کوئی قباحت تو نیہں ہے
اصل میں ایسا کرنے کی وجہ صرف ڈیلیوری کاسٹ کم کرنا ہے اور کچھ نہیں؟
واضح رہے کہ خرید و فروخت کے شرعا جائز ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بیچنے والا جس چیز کو بیچ رہا ہے، وہ اس کی ملکیت اور حسی یا معنوی قبضے میں ہو اور اگر وہ کسی ایسی چیز کو بیچتا ہے، جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے تو یہ بیع درست نہیں، لہذا منقولی اشیا کو قبضہ سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں اور اگر بغیر دیکھے کسی نے خریدا تو بعد میں خریدار کو اختیار ہوگا، چاہے رکھے یا واپس کر دے۔
. البتہ اس کے جواز کی دو صورتیں ہیں۔
(1) آن لائن ریسیلنگ کا کاروبار کرنے والا معاملہ کی ابتدا میں اپنے گاہک کو یہ نہ کہے کہ میں آپ کو یہ چیز بیچ رہا ہوں، بلکہ یہ چیز بیچنے کا وعدہ کرے، اس طرح یہ وعدہ بیع ہو جائے گا اور معاملہ جائز ہو جائے گا ۔
(٢) دوسری صورت وکالت کی ہے، کہ مطلوبہ چیز خرید کر کسٹمر کو دے اور گاہک تک پہنچانے اور اپنی محنت کی طے شدہ اجرت لے ۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آن لائن ریسیلنگ کا کاروبار ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا جائے تو جائز ہے۔
الصحيح البخاري:(2/ 751،ط: السلطانيه)*
عن ابن عمر رضي الله عنهما:
أن النبي صلى الله عليه وسلم قَالَ: (مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ). زَادَ إِسْمَاعِيلُ: (مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يبعه حتى يقبضه).
*سنن الترمذي:(2/ 515،ط:دارالغرب الاسلامي)*
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ - حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «لَا يَحِلُّ سَلَفٌ» وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.
*الشامية: (5/ 73،ط: دارالفكر)*
قوله وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالا أو مؤجلا هداية، وقيد بقوله وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لا يجوز.
*ايضا:(4/ 528،ط:دارالفكر)*
(وإذا وجدا لزم البيع) بلا خيار إلا لعيب أو رؤية.
*ایضاً:(63/6،ط:دارالفكر*)
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
*ایضاً:(560/4،ط:دارالفكر)*
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(ويسلم الثمن أولا في بيع سلعة بدنانير ودراهم) إن أحضر البائع السلعة، (وفي بيع سلعة بمثلها)
*الهندية:(3/ 57،ط: دارالفكر)*
«شراء ما لم يره جائز كذا في الحاوي وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا وصفته كذا والدرة التي في كفي هذه وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقبة. وأما إذا قال: بعت منك ما في كمي هذا أو ما في كفي هذه من شيء هل يجوز هذا البيع؟ لم يذكره في المبسوط قال عامة مشايخنا: إطلاق الجواب يدل على جوازه عندنا كذا في المحيط من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء.