کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے کہ تقدیر اور مقدر ایک چیز ہے یا الگ الگ ہے ؟
واضح رہے کہ شریعت کی اصطلاح میں ’’تقدیر‘‘ کا مطلب ہے قضاء و قدر، یعنی اللہ تعالیٰ نے ازل سے کائنات کے بارے میں جو فیصلہ فرمایا ہے، اسی کا نام ’’تقدیر‘‘ ہے۔ مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقدیر پر ایمان رکھے اور اچھی یا بری، میٹھی یا کڑوی، ہر طے شدہ بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مانے۔ اسی مفہوم میں ’’مقدر‘‘ اور ’’قسمت‘‘ کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔
نیز تقدیر الہی کا اچھا یا برا اور میٹھا یا کڑوا ہونا انسانوں کے اعتبار سے ہے، ورنہ اللہ کی پلاننگ کے اعتبار سے ہر چیز بھلی(اچھی) ہے،پس بھلی بری تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ خواہ وہ طے کردہ باتیں انسانوں کے لیے مفید ہوں یا مضر،میٹھی ہوں یا کڑوی یعنی( انسانوں کو) اچھی لگیں یا بری، سب پر ایمان لانا ضروری ہے، جیسے گھی کے بارے میں تجویز ِالہی یہ ہے کہ وہ صحت بخش ہے اور زہر کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ مہلک ہے، اسی طرح ایمان اور اعمالِ صالحہ کے بارے میں طے ہے کہ وہ جنت میں لے جانے والے اعمال ہیں اور کفر و معاصی جہنم میں لے جانے والے ہیں۔۔۔ اسی طرح بچے کا زندہ رہنا انسان کو پسند ہے اور مر جانا ناپسند ہے، بہرحال یہ سب باتیں اللہ تعالی کی طرف سے طے شدہ ہیں اور ان پر ایمان لانا اور عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
مزید یہ کہ کائناتی چیزوں کی حد تک ہر شخص تقدیرِ الہی کا قائل ہے اور اس کا پابند بھی ہے، لوگ بڑی قیمت دے کر گھی خریدتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں اور زہر کے پاس کوئی نہیں بھٹکتا اور کسی کو اس معاملے میں تقدیرِ الہی پر اعتراض نہیں ، مگر جب ایمان و اعمال ِصالحہ اور کفر و اعمال طالحہ (معاصی) کا معاملہ آتا ہے تو انسان طرح طرح کی باتیں نکالتا ہے اور جب اس کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو جزع وفزع کی حد کر دیتا ہے، یہ تقدیر پر ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔( رحمۃ اللہ الواسعۃ: 1/661،ط: زمزم پبلشرز)
خلاصہ یہ ہے کہ لوگ بھلی بری تقدیر کا مطلب نفس الامر کی اعتبار سے اچھا برا ہونا سمجھتے ہیں، حالانکہ اس اعتبار سے تو ہر چیز خیرِ محض ہے، کارخانہ خداوندی میں کوئی بری نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جس تقدیرِ الہی کا انسان کے ساتھ تعلق ہے، اس کا انسان کے لیے مفید اور غیر مفید ہونا ہے، چنانچہ اس کو کائناتی چیزوں کی حد تک ہر شخص تسلیم کرتا ہے اور مفید باتیں حاصل کرنے کی اور مضر باتوں سے بچنے کی سعی کرتا ہے، بس اعمالِ صالحہ میں بھی یہ بات مان لینی چاہیے اور یہی اچھی بری تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب ہے۔(مستفاد ازتحفۃ الألمعی شرح سنن الترمذی: 5/480، ط: زمزم پبلشرز)
نیز تقدیر کا مطلب یہ نہیں کہ انسان تقدیر کا بہانہ بنا کر خود کو معذور سمجھ کر گناہ کرتا رہے کہ یہ سب کچھ تقدیر میں لکھا گیا ہے، کیونکہ ہمیں اپنی تقدیر کا پہلے سے علم نہیں دیا گیا ،بلکہ نیکی و بدی کا اختیار دیا گیا ہے۔ اورہمیں نیکی کا حکم دیا گیا اور برائی سے روکا گیا ہے۔
دنیاوی ترقی میں اسباب اور محنت کا اثر ضرور ہوتا ہے، مگر نتیجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے، اور انسان کو اتنی ہی ترقی ملتی ہے جتنی اس کے لیے تقدیر میں لکھی گئی ہے،اگر اللہ کی مشیت نہ ہو تو انسان کچھ نہیں کرسکتا۔
اس مسئلے میں بحث سے اشکالات اور شکوک وشبہات کا دروازہ کھلتا ہے، اسی لیے حضور ﷺ نے اس مسئلے میں بحث کرنے سے ہی منع فرمایا ہے، چنانچہ سنن ترمذی کی روایت ہے: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، ہمیں بحث میں الجھے ہوئے دیکھ کر بہت غصہ ہوئے، یہاں تک کہ چہرہٴ انور ایسا سرخ ہوگیا، گویا رخسارِ مبارک میں انار نچوڑ دیا گیا ہو اور بہت ہی تیز لہجے میں فرمایا: ''کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں یہی چیز دے کر بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگ اس وقت ہلاک ہوئے جب انہوں نے اس مسئلہ میں جھگڑا کیا، (لہذا) میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر:2133)۔
واضح رہے کہ سوال میں ذکرکردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام والا مشہور واقعہ حدیث کی کسی مستند و معتبر کتاب میں حدیث کی کسی بھی قسم (صحیح،حسن، ضعیف وغیرہ)کسی بھی شکل میں نہیں ملا،لہذا اس کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
القرآن الکریم:(القمر: 49:54)
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
*القرآن الکریم:(الحديد: 22:57)*
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا.
*صحيح مسلم:(51/8، رقم الحديث:2653،ط:دار طوق النجاة)*
حدثني أبو الطاهر أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح ، حدثنا ابن وهب ، أخبرني أبو هانئ الخولاني ، عن أبي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال:سمعت رسول الله ﷺ يقول: كتب الله مقادير الخلائق قبل أن يخلق السماوات والأرض بخمسين ألف سنة قال: وعرشه على الماء .
*سنن الترمذي: (4/ 285،رقم الحدیث:2516،ط:دارالغرب الاسلامی)*
عن ابن عباس قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: يا غلام، إني أعلمك كلمات؛ احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء، لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام وجفت الصحف.
*سنن ابن ماجه: (1/ 65 ،رقم الحديث:87،ط: دار الرسالة العالمية)*
عن الشعبي قال:لما قدم عدي بن حاتم الكوفة، أتيناه في نفر من فقهاء أهل الكوفة، فقلنا له: حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "يا عدي بن حاتم" أسلم تسلم". قلت: وما الإسلام؟ فقال: "تشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، وتؤمن بالأقدار كلها خيرها وشرها، حلوها ومرها.
*مرقاۃ المفاتیح:(147/1،ط: دارالفکر)*
وسأل رجل علي بن أبي طالب رضي الله عنه فقال: أخبرني عن القدر؟ قال:طريق مظلم لا تسلكه، وأعاد السؤال فقال:بحر عميق لا تلجه، فأعاد السؤال فقال:سر الله قد خفي عليك فلا تفتشه.