میری امی میت کو غسل دیتی ہیں تو جب تک ہمیں معلوم نہیں تھا تب تک ہم منع بھی کرتے تھے لیکن لوگ سامان اور کپڑے وغیرہ دے جاتے تھے اب تو مکمل طور پر منع کر دیتے ہیں اور اب کوئی بھی سامان نہیں لیتے تو پہلے جب سامان دیتے تھے تو اس میں چاندی کا سامان بھی ہوتا تھا جس کو وہ لوگ ختم وغیرہ بھی دیتے تھے تو اب وہ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں
مہربانی فرما کر رہنمائی فرما دیں ۔جزاک اللہ خیرا کثیرا واحسن الجزا فی الدنیا والآخرہ
میت کو غسل دینا فرضِ کفایہ ہے اور اگر کوئی شخص اس فرض کو انجام دیتا ہے تو اس پر اجرت لینے کی گنجائش ہے، بالخصوص جب وہ اس خدمت کو بطور پیشہ انجام دے رہا ہو، یا کوئی اور بلا اجرت میسر نہ ہو، تاہم افضل یہ ہے کہ یہ عمل ثواب کی نیت سے بلا معاوضہ کیا جائے۔
پوچھی گئی صورت میں آپ کی والدہ کو دی جانے والی چیزیں اگر بطور اجرت تھیں تو ان کا استعمال کرنا جائز ہے ۔
*بدائع الصنائع:(300/1،ط: دارالکتب العلمیة)*
وأما بيان كيفية وجوبه فهو واجب على سبيل الكفاية إذا قام به البعض سقط عن الباقين لحصول المقصود بالبعض كسائر الواجبات على سبيل الكفاية، وكذا الواجب هو الغسل مرة واحدة، والتكرار سنة وليس بواجب.
*الهندية:(159،160/1،ط: دارالفکر)*
- والأفضل أن يغسل الميت مجانا وإن ابتغى الغاسل الأجر فإن كان هناك غيره يجوز أخذ الأجر وإلا لم يجز، هكذا في الظهيرية.
*الشامیة:(118/1،ط:دارالکتب العلمیة)*
والافضل أن يغسل) الميت (مجانا، فإن ابتغى الغاسل الاجر جاز إن كان ثمة غيره، وإلا لا) لتعينه عليه وينبغي أن يكون حكم الحمال والحفار كذلك.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،اورنگی ٹاؤن،کراچی