تحقیق و تخریج حدیث

دنیا میں کسی انسان کے لیے وقت کے رک جانے سے متعلق روایات کی تحقیق

فتوی نمبر :
343
| تاریخ :
0000-00-00
قرآن و حدیث / تحقیق و تخریج حدیث / تحقیق و تخریج حدیث

دنیا میں کسی انسان کے لیے وقت کے رک جانے سے متعلق روایات کی تحقیق

سوال :دنیا میں چار بار وقت کا رک جانا اسکے بارے میں رھنمائی فرمائیں

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ کسی انسان کے لیے وقت کا تھم جانا اور کسی انسان کے لیے سورج کے غروب ہونے میں تاخیر ہونا،اس بارے میں پانچ طرح کے واقعات مشہور ہیں۔ ان میں سے دو واقعے غیر مستند ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں ہے، ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
1 حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ کے اذان نہ دینے کے وقت۔
2-حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دوپٹہ سر سے گرنے کے وقت سورج کا رک جانا۔
یہ دونوں واقعات حدیث کی کسی مستند و معتبر کتاب میں حدیث کی کسی بھی قسم (صحیح،حسن، ضعیف وغیرہ)کسی بھی شکل میں نہیں ملے،لہذا ان دو واقعات کے بیان کرنے اور ان کی نسبت جناب رسول اللہﷺ کی طرف کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
بقیہ تین واقعات جو کہ مستند روایات سے ثابت ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1-حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے وقت کا رک جانا:
صحیح بخاری میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک نبی (یوشع علیہ السلام) نے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا کہ کوئی ایسا شخص جس نے ابھی نئی شادی کی ہو اور بیوی کے ساتھ رات بھی نہ گزاری ہو اور وہ رات گزارنا چاہتا ہو اور وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ رکھی ہو اور وہ شخص جس نے حاملہ بکری یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو تو (ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی) ہمارے ساتھ جہاد میں نہ چلے۔ پھر انہوں نے جہاد کیا اور جب اس آبادی (اریحا) سے قریب ہوئے تو عصر کا وقت ہو گیا یا اس کے قریب وقت ہوا۔ انہوں نے سورج سے فرمایا کہ تو بھی اللہ کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں۔ اے اللہ! ہمارے لیے اسے اپنی جگہ پر روک دے، چنانچہ سورج رک گیا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے کے لیے آئی، لیکن جلا نہ سکی ،اس نبی نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ اس لیے ہر قبیلہ کا ایک آدمی آ کر میرے ہاتھ پر بیعت کرے (جب بیعت کرنے لگے تو) ایک قبیلہ کے شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا۔ انہوں نے فرمایا ، کہ چوری تمہارے قبیلہ ہی والوں نے کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ آئیں اور بیعت کریں۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو تین آدمیوں کا ہاتھ اس طرح ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا تو آپ نے فرمایا کہ چوری تمہیں لوگوں نے کی ہے۔ (آخر چوری مان لی گئی) اور وہ لوگ گائے کے سر کی طرح سونے کا ایک سر لائے (جو غنیمت میں سے چرا لیا گیا تھا) اور اسے مال غنیمت میں رکھ دیا ، تب آگ آئی اور اسے جلا گئی ، پھر غنیمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جائز قرار دے دی ، ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھا۔ اس لیے ہمارے واسطے حلال قرار دے دی۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:3124)
2- نبی کریمﷺکے لیے معراج کی صبح سورج رکنے کا واقعہ:
دلائل النبوۃ میں امام بیہقی(م۴۵۸ھ)نے نقل کیا ہے کہ اسماعیل بن عبدالرحمن قرشی بیان کرتے ہیں:’’جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کرائی گئی اور آپ ﷺ نے اپنی قوم کو قافلے اور اس کے نشانات کی خبر دی، تو انہوں نے کہا: وہ قافلہ کب آئے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بدھ کے دن۔جب وہ دن آیا تو قریش لوگ اونچی جگہ پر چڑھ کر دیکھنے لگے، لیکن دن کا کافی حصہ گزر گیا اور قافلہ نہ آیا۔ اس پر نبی ﷺ نے دعا فرمائی تو آپ کے لیے دن میں ایک گھڑی کا اضافہ کر دیا گیا اور سورج کو روک دیا گیا۔ سورج کسی کے لیے نہیں لوٹایا گیا سوائے دو لوگوں کے: ایک رسول اللہ ﷺ کے لیے اُس دن اور دوسرا یوشع بن نون کے لیے، جب وہ جمعہ کے دن جبارین (طاقتور دشمنوں) سے لڑ رہے تھے۔جب سورج ڈھلنے لگا تو یوشع بن نون کو خوف ہوا کہ کہیں وہ غروب نہ ہو جائے اس سے پہلے کہ وہ دشمن سے فارغ ہو جائیں، کیونکہ اگر سورج غروب ہو جاتا اور سنیچر کا دن شروع ہو جاتا تو ان کے لیے قتال حلال نہ رہتا، چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے سورج کو لوٹا دیا، یہاں تک کہ وہ دشمن سے فارغ ہو گئے۔‘‘
تخریج الحدیث:
۱۔ذکرکردہ حدیث کو امام بیہقی(م۴۵۸ھ) نے’’دلائل النبوۃ‘‘(2/404،ط:دارالکتب العلمیۃ) میں ذکر کیا ہے۔

۲۔قاضی عیاض(م۵۴۴ھ)نے’’ الشفا بتعريف حقوق المصطفى‘‘(1/284،ط:دارالکتب العلمیۃ) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔علامہ ابن عساکر(م۵۷۱ھ)نے’’تاریخ دمشق‘‘(74/271،ط:دارالفکر)میں ذکر کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ھ) نے اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے، البتہ علامہ طبرانی ؒ نے ’’ المعجم الاوسط‘‘ میں اسی طرح کی ایک اور روایت ذکر کی ہے جو اس حدیث کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج کو حکم دیا، تو وہ دن کے ایک حصے کے لیے مؤخر (رک) گیا۔(المعجم الاوسط، حدیث نمبر:4039)
اس روایت کو علامہ زین الدین عراقی(م۸۰۶ھ)،علامہ ہیثمی(م۸۰۷ھ)اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج کی صبح سورج روک جانے سے متعلق واقعہ کی اصل موجود ہے۔
3-حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج رکنے کاواقعہ :
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صہباء (نامی مقام) میں ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کام کے لیے بھیجا۔ وہ واپس آئے تو نبی ﷺ عصر کی نماز ادا کر چکے تھے، اس وقت نبی ﷺ نے اپنا سر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں رکھ دیا، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے حرکت نہیں دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔اس پر نبی ﷺ نے دعا کی:’’اے اللہ! بے شک تیرا بندہ علی رضی اللہ عنہ نے تیرے نبی کے لیے اپنی جان روک لی ہے، تو اس پر سورج کو واپس لے آ۔‘‘حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: تو سورج دوبارہ طلوع ہوا، یہاں تک کہ اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پھیل گئی۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر وضو کیا اور عصر کی نماز ادا کی، پھر سورج غروب ہو گیا۔ یہ واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر صہباء میں پیش آیا۔(شرح مشکل الآثار،حدیث نمبر:1068)
تخریج الحدیث:
۱۔ذکرکردہ روایت کو امام طحاوی(م۳۲۱ھ)نے’’شرح مشکل الآثار‘‘(3/94،رقم الحدیث:1068،ط:مؤسسة الرسالة)میں ذکر کیا ہے۔
۲۔امام طبرانی(م۳۶۰ھ)نے’’المعجم الکبیر‘‘(24/144،رقم الحدیث:382،ط: مكتبة ابن تيمية)میں ذکر کیا ہے۔
حکم علی الحدیث:
ذکرکردہ روایت کو علامہ ابن الجوزی(م597ھ)،علامہ ابن تیمیہ (م٧٢٨ھ)،علامہ ابن قیم (م٧٥١ ھ )،علامہ جوزقانی اور حافظ ابن کثیر(۷۷۴ھ)نے موضوع(من گھڑت)قراردیا ہے،تاہم امام طحاوی(م۳۲۱ھ) نے خود اس روایت کو نقل کرنے کے بعد تفصیلی کلام کرتے ہوئے لکھا ہے:’’وكل هذه الأحاديث من علامات النبوة‘‘’’ یہ تمام احادیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘ جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ھ)نے ابن جوزی اور ابن تیمیہ رحمہما اللّٰہ کے اس قول کو غلطی پر مبنی قرار دیا ہے۔
قاضی عیاض(م۵۴۴ھ)نے اس روایت کو ثابت قرار دیا۔
حافظ زین الدین عراقی(م۸۰۶ھ) اور علامہ سیوطی (م۹۱۱ھ)نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘قرار دیا۔
خلاصۂ کلام
کسی انسان کے لیے وقت کا تھم جانا اور کسی انسان کے لیے سورج کے غروب ہونے میں تاخیر کرنا۔ اس بارے پانچ طرح کے واقعات مشہور ہیں۔ ان میں سے دو واقعے (حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ کے اذان نہ دینے کے وقت اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دوپٹہ سر سے گرنے کے وقت سورج کا رک جانا)غیر مستند ہیں۔ ان کی کوئی اصل نہیں ہے، لہذا ان دو واقعات کا بیان کرنا درست نہیں۔
بقیہ تین واقعات(حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے وقت کا رک جانا، نبی کریمﷺکے لیے معراج کی صبح سورج رکنے کا واقعہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج رکنے کاواقعہ ) مستند روایات سے ثابت ہیں،لہذا ان واقعات کو بیان کیاجاسکتا ہے۔

حوالہ جات

صحيح البخاري: (4/ 86، رقم الحدیث:3124،ط:دارطوق النجاۃ)
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غزا نبي من الأنبياء، فقال لقومه: لا يتبعني رجل ملك بضع امرأة، وهو يريد أن يبني بها، ولما يبن بها ولا أحد بنى بيوتا ولم يرفع سقوفها، ولا أحد اشترى غنما أو خلفات، وهو ينتظر ولادها، فغزا، فدنا من القرية صلاة العصر، أو قريبا من ذلك، فقال للشمس: إنك مأمورة وأنا مأمور، اللهم احبسها علينا، فحبست حتى فتح الله عليه، فجمع الغنائم فجاءت يعني النار لتأكلها فلم تطعمها، فقال: إن فيكم غلولا، فليبايعني من كل قبيلة رجل، فلزقت يد رجل بيده، فقال: فيكم الغلول، فليبايعني قبيلتك، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة بيده، فقال: فيكم الغلول، فجاءوا برأس مثل رأس بقرة من الذهب، فوضعوها، فجاءت النار فأكلتها، ثم أحل الله لنا الغنائم، رأى ضعفنا وعجزنا، فأحلها لنا.

دلائل النبوة للبيهقي: (2/ 404، ط: دارالكتب العلمية)
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: حدثنا أبو العباس: محمد بن يعقوب، قال: حدثنا أحمد بن عبد الجبار، قال: حدثنا يونس بن بكير، عن أسباط بن نصر الهمداني، عن إسماعيل بن عبد الرحمن القرشي، قال «لما أسري برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وأخبر قومه بالرفقة والعلامة في العير، قالوا فمتى يجيء، قال: يوم الأربعاء فلما كان ذلك اليوم أشرفت قريش ينظرون وقد ولى النهار ولم يجيء فدعا النبي صلى الله عليه وآله وسلم فزيد له في النهار ساعة، وحبست عليه الشمس، فلم ترد الشمس على أحد إلا على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يومئذ، وعلى يوشع بن نون حين قاتل الجبارين يوم الجمعة، فلما أدبرت الشمس خاف أن تغيب قبل أن يفرغ منهم ويدخل السبت فلا يحل له قتالهم فيه، فدعا الله فرد عليه الشمس حتى فرغ من قتالهم.

هذا الحديث أخرجه ابن عساكر في "تاريخ دمشق"(74/271) وذكره القاضي عياض في " الشفا بتعريف حقوق المصطفى"(1/284)
و ذكره السيوطي في "الخصائص الكبرى"(1/296) وذكره ابن حجر العسقلاني في "فتح الباري" (6/ 221 ) وقال:وهذا منقطع، لكن وقع في الأوسط للطبراني من حديث جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم ‌أمر ‌الشمس ‌فتأخرت ‌ساعة ‌من ‌نهار وإسناده حسن.

المعجم الأوسط للطبراني: (4/ 224،رقم الحديث:4039،ط: دار الحرمين)
حدثنا علي بن سعيد قال: نا أحمد بن عبد الرحمن بن المفضل الحراني قال: نا الوليد بن عبد الواحد التميمي قال: نا معقل بن عبيد الله، عن أبي الزبير، عن جابر: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أمر ‌الشمس ‌فتأخرت ‌ساعة ‌من ‌نهار»لم يرو هذا الحديث عن معقل إلا الوليد، تفرد به: أحمد بن عبد الرحمن، ولم يروه عن أبي الزبير إلا معقل ".

هذا الحديث حسنه العراقي في "طرح التثريب في شرح التقريب"(7/247) وذكره الهيثمي في "مجمع الزوائد"(8/296)(14095)وقال: رواه الطبراني في الأوسط وإسناده حسن.

شرح مشكل الآثار: (3/94،رقم الحدیث:1068،ط:مؤسسة الرسالة)
حدثنا علي بن عبد الرحمن بن محمد بن المغيرة، قال: حدثنا أحمد بن صالح، قال: حدثنا ابن أبي فديك، قال: حدثني محمد بن موسى، عن عون بن محمد، عن أمه أم جعفر، عن أسماء ابنة عميس، أن النبي صلى الله عليه وسلم ‌صلى ‌الظهر ‌بالصهباء ‌ثم ‌أرسل ‌عليا عليه السلام ‌في ‌حاجة فرجع ، وقد صلى النبي صلى الله عليه وسلم العصر، فوضع النبي صلى الله عليه وسلم رأسه في حجر علي فلم يحركه حتى غابت الشمس، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اللهم إن عبدك عليا احتبس بنفسه على نبيك فرد عليه شرقها " قالت أسماء فطلعت الشمس حتى وقعت على الجبال وعلى الأرض ، ثم قام علي فتوضأ وصلى العصر ، ثم غابت وذلك في الصهباء في غزوة خيبر.

هذا الحديث أخرجه الطحاوي في "مشكل الآثار"(3/ 97) وقال:وكل هذه الأحاديث من علامات النبوة. وأخرجه الطبراني في "معجمه الكبير"(24/144) (382)

ذكره ابن الجوزي في "الموضوعات" وجزم بوضعه.وذكره ابن تيمية في "منهاج السنة النبوية" (8/ 176): وأيضا فإذا كانت هذه القصة في خيبر في البرية قدام العسكر، والمسلمون أكثر من ألف وأربعمائة، كان هذا مما يراه العسكر ويشاهدونه. ومثل هذا مما تتوفر الهمم والدواعي عن نقله؛ فيمتنع أن ينفرد بنقله الواحد والاثنان، فلو نقله الصحابة لنقله منهم أهل العلم، كما نقلوا أمثاله، لم ينقله المجهولون الذين لا يعرف ضبطهم وعدالتهم.وليس في جميع أسانيد هذا الحديث إسناد واحد يثبت، تعلم عدالة ناقليه وضبطهم، ولا يعلم اتصال إسناده.وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم عام خيبر: "لأعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله" فنقل ذلك غیر واحد من الصحابة، وأحاديثهم في الصحاح والسنن والمساند.وهذا الحديث ليس في شيء من كتب الحديث المعتمدة: لا رواه أهل الصحيح ولا أهل السنن ولا المساند أصلا، بل اتفقوا على تركه والإعراض عنه، فكيف يكون مثل هذه الواقعة العظيمة، التي هي لو كانت حقا من أعظم المعجزات المشهورة الظاهرة، ولم يروها أهل الصحاح والمساند، ولا نقلها أحد من علماء المسلمين وحفاظ الحديث، ولا يعرف في شيء من كتب الحديث المعتمدة!.

و ذكره ابن كثيرفي "البداية والنهاية:(6/ 123)
وقال:وهذا الإسناد فيه من يُجهل حالُه؛ فإن عَونًا هذا وأمه لا يُعرف أمرُهما بعدالة وضبط يُقبل بسببهما خبرُهما فيما هو دون هذا المقام، فكيف يثبتُ بخبرهما هذا الأمر العظيم، الذي لم يروه أحدٌ من أصحاب الصحاح ولا السنن ولا المسانيد المشهورة؟ فاللّه أعلم. ولا ندري أسمعتْ أمُّ هذا من جَدتها أسماء بنت عُميس أم لا؟.

وقال أيضاً: (6/ 129):
«قلت: والأئمة في كلّ عصر يُنكرون صحة هذا الحديث، ويردُّونه ويُبالغون في التشنيع على رُواته كما قدَّمنا عن غير واحد من الحفّاظ، كمحمد ويعلى بن عبيد الطنافِسيَّين، وكإبراهيم بن يَعقوب الجوزجاني خطيب دمشق، وكأبي بكر محمد بن حاتم البخاري، المعروف بابن زنجويه، وكالحافظ أبي القاسم بن عساكر، والشيخ أبي الفرج بن الجوزي، وغيرهم من المتقدمين والمتأخرين.وممن صرَّحَ بأنه موضوع شيخُنا الحافظ أبو الحجاج المِزّي، والعلَّامة أبو العباس بن تيمية، وقال الحاكم أبو عبد اللّه النيسابوري: قرأتُ على قاضي القضاة أبي الحسن محمد بن صالح الهاشمي: حَدَّثَنَاعبد اللّه بن الحسين بن موسى، حَدَّثَنَا عبد اللّه بن عليّ بن المديني قال: سمعتُ أبي يقول: خمسةُ أحاديث يروونها، ولا أصل لها عن رسول اللّه صلى الله عليه وسلم؛ حديث: لو صدقَ السائلُ ما أفلحَ من رَدَّه، وحديث: لا وجع إِلَّا وَجَعَ العين، ولا غمَّ إِلَّا غم الدين، وحديث: أن الشمس رُدّت على عليّ بن أبي طالب، وحديث: أنا أكرمُ على اللّه من أن يدعني تحت الأرض مئتي عام، وحديث: أفطرَ الحاجمُ والمحجوم؛ إنهما كانا يَغتابان.والطحاوي رحمه الله وإن كان قد اشتَبه عليه أمرُه، فقد روى عن أبي حنيفة رحمه الله إنكاره والتهكم بمن رواه، قال أبو العباس بن عُقدة: حَدَّثَنَا جعفر بن محمد بن عُمير، حَدَّثَنَا سليمان بن عبَّاد، سمعتُ بشّار بن دراع قال: لقي أبو حنيفة محمد بن النعمان، فقال: عمن رويتَ حديثَ ردّ الشمس؟ فقال: عن غير الذي رويتَ عنه: يا سارية الجبل.فهذا أبو حنيفة رحمه الله، وهو من الأئمة المعتبرين، وهو كوفيٌّ لا يُتَّهم على حبّ عليّ بن أبي طالب وتفضيله بما فضله اللّه به ورسولُه، وهو مع هذا يُنكر على راويه، وقول محمد بن النعمان له ليس بجواب بل مجرد معارضة بما لا يُجدي، أي: أنا رويتُ في فضل عليّ هذا الحديث، وهو وإن كان مستغربًا فهو في الغرابة نظيرُ ما رويتَه أنت في فضل عمر بن الخطاب في قوله: يا ساريةَ الجبل. وهذا ليس بصحيح من محمد بن النعمان، فإن هذا ليس إسنادًا ولا متنًا، وأين مكاشفة إمام قد شهد الشارع له بأنه مُحَدَّثٌ بأمرِ خيرٍ، من ردّ الشمس طالعة بعد مغيبها الذي هو أكبر علامات الساعة؛ والذي وقع ليوشع بن نون ليس ردًّا للشمس عليه، بل حُبِست ساعة قبل غروبها، بمعنى تباطأت في سيرها حتى أمكنهم الفتح، واللّه تعالى أعلم.
وتقدم ما أورده هذا المصنف من طرق هذا الحديث: عن على، وأبي هريرة، وأبي سعيد، وأسماء بنت عميس، وقد وقع في كتاب أبي بشر الدولابي في "الذرية الطاهرة" من حديث الحسين بن علي، والظاهر أنه عنه، عن أبي سعيد الخدري كما تقدم، واللّه أعلم.
وقد قال شيخُ الرافضة جمال الدين يُوسف بن الحسن الملقب بابن المُطَهِّر الحِلِّي في كتابه "في الإمامة" الذي ردَّ عليه شيخنا العلامة أبو العباس ابن تيمية، قال ابن المُطهر: التاسع: رجوع الشمس مرتين: إحداهما في زمن النبي صلى الله عليه وسلم، والثانية بعده. أما الأولى، فروى جابر وأبو سعيد: أن رسول اللّه صلى الله عليه وسلم نزلَ عليه جبريل يومًا يُناجيه من عند اللّه، فلما تغشَّاه الوحيُ توسَّد فخذَ أمير المؤمنين، فلم يرفع رأسَه حتى غابت الشمس، فصلَّى عليٌّ العصرَ بالإيماء، فلما استيقظَ رسولُ اللّه صلى الله عليه وسلم قال له: سل اللّه أن يردَّ عليك الشمسَ فتُصلِّي قائمًا. فدعا فرُدَّتِ الشمسُ فصلّى العصر قائمًا.وأما الثانية فلما أراد أن يعبرَ الفرات ببابل، واشتغلَ كثيرٌ من الصحابة بدوائهم، وصلَّى لنفسه في طائفة من أصحابه العصرَ، وفاتَ كثيرًا منهم، فتكلّموا في ذلك، فسأل اللّه رَدَّ الشمسِ فرُدَّت.
قال: وقد نظمه الحِميَريّ فقال:
رُدَّت عَليهِ الشمسُ لَمَّا فَاتَهُ … وَقتُ الصَّلاةِ وقد دَنَت للمَغرِبِ
حَتَّى تَبَلَّجَ نُورها في وَقتِها … لِلعَصرِ ثُمَّ هَوَت هَوِيَّ الكوكَبِ
وَعليهِ قَد رُدَّت بِبابِلَ مَرَّةً … أخرى وَما رُدَّت لِخَلقِ المغرِبِ
قال شيخُنا أبو العباس (ابن تيمية) رحمه الله: فضل عليّ وولايتُه وعلوّ منزلته عند اللّه معلوم وللّه الحمد بطرق ثابتة، أفادتنا العلم اليقيني، لا يُحتاج معها إلى ما لا يُعلم صدقُه أو يُعلم أنه كذب، وحديثُ ردّ الشمس قد ذكرَه طائفةٌ كأبي جعفر الطحاوي، والقاضي عياض، وغيرهما، وعدُّوا ذلك من معجزات رسول اللّه صلى الله عليه وسلم، لكن المحقّقون من أهل العلم والمعرفة بالحديث يَعلمون أن هذا الحديث كذبٌ موضوع، ثم أورَد طرقَه واحدة واحدةً كما قدّمنا، وناقش أبا القاسم الحسكاني فيما تقدم، وقد أوردنا كلَّ ذلك، وزدنا عليه ونقصنا منه، واللّه الموفق.

وقال أيضاً:(2/ 126)
ولكنه منكر ليس في شيء من الصحاح ولا الحسان، وهو مما تتوفر الدواعي على نقله. ‌وتفرّدت ‌بنقله ‌امرأة ‌من ‌أهل ‌البيت مجهولة لا يعرف حالها. والله أعلم.و ذكره ابن القيم في كتابه" المنار المنيف"(57)(83) وجعله من أمثلة الموضوع.

لكن ذكره القاضي عياض في "الشفا بتعريف حقوق المصطفى "(1/ 284) وقال:‌وهذان ‌الحديثان ثابتان ورواتهما ثقات * وحكى الطحاوي أن أحمد بن صالح كان يقول لا ينبغي لمن سبله العلم التخلف عن حفظ حديث أسماء لأنه من علامات النبوة.

ذكره زين الدين العراقي في "طرح التثريب في شرح التقريب"(7/ 247):وقال:وروى الطبراني في معجمه الكبير بإسناد حسن..الخ. وذكره الهيثمي في "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد" (8/ 297)(14097)وقال:رواه كله الطبراني بأسانيد، ورجال أحدها رجال الصحيح، عن إبراهيم بن حسن وهو ثقة وثقه ابن حبان، وفاطمة بنت علي بن أبي طالب لم أعرفها.وذكره الحافظ ابن حجر العسقلاني في "فتح الباري" (6/ 222 ) وقال:وهذا أبلغ في المعجزة، وقد أخطأ ابن الجوزي بإيراده له في الموضوعات، وكذا ابن تيمية في كتاب الرد على الروافض في زعم وضعه.

وذكره السيوطي في "اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة: (1/ 312) وقال:ومما يشهد بصحة ذلك قول الإمام الشافعي رضي الله عنه وغيره ما أوتي نبي معجزة إلا أوتي نبينا نظيرها أو أبلغ منها وقد صح أن الشمس حبست على يوشع ليالي قاتل الجبارين فلا بد أن يكون لنبينا نظير ذلك فكانت هذه القصة نظير تلك والله أعلم.

وأقره ابن عراق الكناني في "تنزيه الشريعة "(1/ 379)وقال:(قلت) وممن صرح بذلك جازما به الإمام حازم القرطاجى فقال في مقصورته:(والشمس ما ردت لغير يوشع … لما غزا ولعلي إذ غفا).

وذكره السيوطي في"الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة"(222)(493)وقال: أخرجه ابن منده وابن شاهين من حديث أسماء بنت عميس، وابن مردويه من حديث أبي هريرة، وإسنادهما حسن، وممن صححه الطحاوي والقاضي عياض. وقد ادعى ابن الجوزي أنه موضوع فأخطأ كما بينته في مختصر الموضوعات وفي التعقبات، انتهى.

وذكره الملا على القاري في" شرح الشفا" (1/ 595)وقال:وفي المواهب قال شيخنا قال أحمد لا أصل له وتبعه ابن الجوزي فأورده في الموضوعات ولكن قد صححه الطحاوي والقاضي عياض وأخرجه ابن منده وابن شاهين من حديث اسماء بنت عميس وابن مردويه من حديث أبي هريرة انتهى قال القسطلاني وروى الطبراني أيضا في معجمه الكبير بإسناد حسن كما حكاه ابن العراقي في شرح التقريب.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 343کی تصدیق کریں
27
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • کیارسول اللہﷺپرجادوہواتھا

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • عورت جنت میں کس شوہر کے ساتھ ہوگی؟

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • قیامت کے دن سورج سوا نیزے کے فاصلے پر ہونے کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خط کی حقیقت

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • پانچ نمازوں کی فضیلت سے متعلق روایت کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • بڑھیا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچرا پھینکنے کے واقعے کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • دنیا میں کسی انسان کے لیے وقت کے رک جانے سے متعلق روایات کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • ’’خیبر کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اور یہ کام انبیائے علیہم السلام میں سے کسی ایک سے بھی نہیں لیا گیا۔‘‘ کہنے والے کا حکم

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
  • دعائے ابو درداء رضی اللہ عنہ کی تحقیق

    یونیکوڈ   تحقیق و تخریج حدیث 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات