السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
یہ بات مشہور ہے کہ قیامت والے دن سورج سوا نیزے پر ہوگا، اس کی اصل کیا ہے؟
کسی مستند ذرائع سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے تو ارشاد فرمادیں ؟
واضح رہے کہ قیامت کے دن سورج لوگوں کے قریب ہوگا۔ اس قرب کے بارے میں روایات میں درج ذیل الفاظ وارد ہوئے ہیں:
1۔"كمقدار ميل"یعنی ایک میل کے فاصلے پر ،جیسا کہ صحیح مسلم(حدیث نمبر: 62 - (2864))میں ہے:’’حضرت مقداد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن سورج مخلوقات کے بہت نزدیک آ جائے گا، حتی کہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہو گا۔“ نیلم بن عامر نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ میل سے ان (مقداد رضی اللہ عنہ) کی مراد مسافت ہے، یا وہ سلائی، جس سے آنکھ میں سرمہ ڈالا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں (ڈوبے) ہوں گے، ان میں سے کوئی اپنے دونوں ٹخنوں تک، کوئی اپنے دونوں گھٹنوں تک، کوئی اپنے دونوں کولہوں تک اور کوئی ایسا ہو گا جسے پسینے نے لگام ڈال رکھی ہو گی۔“ (مقداد رضی اللہ عنہ) کہا: اور (ایسا فرماتے ہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘
سنن ترمذی کی روایت میں"قيد ميل أو اثنين"’’ایک میل یا دو میل کا فاصلہ‘‘ ذکر ہے۔
۲۔"قاب قوس، أوقاب قوسين"یعنی ایک کمان یا دو کمان،جیسا کہ مصنف عبدالرزاق (حدیث نمبر:20850) میں ہے:’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قیامت کے دن سورج لوگوں کے سروں کے قریب آ جائے گا، اتنا قریب جتنا ایک کمان کا فاصلہ ہوتا ہے ـ یا فرمایا: دو کمانوں کے برابر۔ پھر اس کی گرمی دس برس کے برابر دے دی جائے گی۔ اس دن انسانوں میں سے کسی بشر پر کپڑا (لباس) نہ ہوگا، مگر مؤمن مرد یا مؤمنہ عورت کی شرم گاہ نظر نہ آئے گی۔ اس دن سورج کی گرمی مؤمن مرد یا مؤمنہ عورت کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، البتہ کافر کو ایسا پکائے گی کہ ان کے پیٹ سے آواز نکلنے لگے گی: غق غق۔‘‘
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن سورج کا لوگوں کے قریب ہوگا اور احادیث مبارکہ میں اس کی مقدار کے لیے’’ ایک میل یا دو میل‘‘ اور کہیں’’ایک کمان یا دو کمان‘‘کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں اور جہاں تک یہ بات جو مشہور ہے کہ’’ قیامت کے دن سورج سوا نیزے پر ہوگا۔‘‘ تلاش بسیار کے باوجود، کتب حدیث میں نہیں ملی،لہذا اس کو بیان کرنے اور اس کی نسبت جناب رسول اللہﷺ کی طرف کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
البتہ”سوا نیزے پر سورج آنا“کے الفاظ اردو محاورے میں شدید ترین گرمی پڑنے اور آثارِ قیامت نمودار ہونے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لہذا سوا نیزے کی مقدار کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف کیے بغیر قیامت کی ہولناکی کو بیان کرنے کے لیے بطور محاورہ اس کی گنجائش ہے۔
*صحيح مسلم:(8/ 158،رقم الحديث: 62 - (2864)،ط:دار طوق النجاة)*
حدثنا الحكم بن موسى أبو صالح ، حدثنا يحيى بن حمزة ، عن عبد الرحمن بن جابر ، حدثني سليم بن عامر ، حدثني المقداد بن الأسود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: « تدنى الشمس يوم القيامة من الخلق حتى تكون منهم كمقدار ميل. قال سليم بن عامر : فوالله ما أدري ما يعني بالميل، أمسافة الأرض أم الميل الذي تكتحل به العين. قال: فيكون الناس على قدر أعمالهم في العرق، فمنهم من يكون إلى كعبيه، ومنهم من يكون إلى ركبتيه، ومنهم من يكون إلى حقويه، ومنهم من يلجمه العرق إلجاما. قال: وأشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى فيه .
وأخرجه الترمذي في "سننه"(4/219)(2421)بلفظ:"إذا كان يوم القيامة أدنيت الشمس من العباد» حتى تكون قيد ميل أو اثنين".
*مصنف لعبدالرزاق:(11/ 403،رقم الحديث:20850،،ط:المجلس العلمي)*
أخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن سليمان التيمي، عن أبي عثمان النهدي، عن سلمان، قال: «تدنو الشمس يوم القيامة من رءوس الناس قاب قوس - أو قال: قاب قوسين - وتعطى حر عشر سنين، وليس على بشر من الناس يومئذ طحربة، ولا ترى يومئذ عورة مؤمن ولا مؤمنة، ولا يضر حرها يومئذ مؤمنا ولا مؤمنة، وتطبخ الكافر طبخا حتى يقول جوف أحدهم: غق غق.
*فیروز اللغات:(ص:816،ط: فیروز سنز)*
بڑھیا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچرا پھینکنے کے واقعے کی تحقیق
یونیکوڈ تحقیق و تخریج حدیث 0’’خیبر کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اور یہ کام انبیائے علیہم السلام میں سے کسی ایک سے بھی نہیں لیا گیا۔‘‘ کہنے والے کا حکم
یونیکوڈ تحقیق و تخریج حدیث 0