السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال یہ ہے کہ میں نے اپنا ایک عددمکان اپنے ماموں کو فروخت کیا قسطوں پر کل قیمت 1350000لاکھ روپے تھی ہرماہ 10ہزار روپے قسط پر اس نے 5مہینے میں 50ہزار روپے ادا کئے اور اس مکان میں ایک پانی کا ٹینک بھی بنایا جس پر بقول انکے 65 ہزار روپے خرچہ ہوا ہے اسکے بعد انہوں نے وہ مکان واپس کردیا ہے
اب پوچھنا یہ ہے کہ انکی یہ رقم ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے ہےیہ انکو واپس کرنے ہونگے کہ نہیں اگر یہ رقم انکو واپس کرنی ہے تو مجھے اس مکان کے 5ماہ انکے زیر استعمال ہونے کی وجہ سے کرایہ وغیرہ لینے کا حق ہے کہ نہیں
دوسری بات یہ ہے کہ یہ رقم انکو قسط وار دینی ہوگی یا یک مشت
رہنمائی فرما کر ثواب دارین حاصل کریں
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ اپنے ماموں سے مکان واپس لینے پر راضی ہیں تو آپ پر وصول کردہ رقم (پچاس ہزار) ماموں کو لوٹانا ضروری ہے، نیز اس کی ادائیگی یکمشت لازم ہے، البتہ اگر آپ کے ماموں قسطوں میں وصول کرنے پر راضی ہوں تو یہ بھی جائز ہے۔
نیز اس مکان پر جو اضافی تعمیر کی گئی، باہمی رضا مندی سے اس کی ایک قیمت طے کر کے مکان کی کل قیمت سے کم کر دی جائے،لیکن آپ کے لیے ان(ماموں) سے پانچ ماہ کا کرایہ وصول کرنا جائز نہیں، کیونکہ چیز فروخت کرنے کے بعد واپس لینا شرعاً اقالہ کہلاتا ہے اور اقالہ میں پہلی بیع فسخ ہوتی ہے، قیمت میں کمی زیادتی جائز نہیں ہوتی۔
الشامیة:(73/5،ط: دارالفکر)*
"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول...(ولا بد) لعدم الجواز (من اتحاد جنس الثمن) وكون المبيع بحاله (فإن اختلف) جنس الثمن أو تعيب المبيع (جاز مطلقا) كما لو شراه بأزيد أو بعد النقد.
(قوله قبل نقد كل الثمن الأول) قيد به؛ لأن بعده لا فساد، ولا يجوز قبل النقد، وإن بقي درهم ... (قوله بأزيد أو بعد النقد) ومثل الأزيد المساوي كما في الزيلعي، وهذا قول المصنف بالأقل قبل نقد الثمن."
*وفیھا ایضاً:(125/5،ط: دارالفکر)*
(قوله: لا قبله مطلقا) أي متصلة أو منفصلة قال في الفتح: والحاصل أن الزيادة متصلة كانت كالسمن أو منفصلة كالولد والأرش والعقر إذا كانت قبل القبض لا تمنع الفسخ والدفع، وإن كانت بعد القبض متصلة، فكذلك عنده، وإن كانت منفصلة بطلت الإقالة لتعذر الفسخ معها اهـ۔ ومثله في ابن مالك على المجمع لكن قدمنا عن الخلاصة أن ما يمنع الرد بالعيب يمنع، الإقالة، وقدمنا أيضا أن الرد بالعيب يمتنع في المتصلة الغير المتولدة مطلقا، وفي المنفصلة المتولدة لو بعد القبض فقط ويوافقه ما في الخامس والعشرين من جامع الفصولين: أن الرد بالعيب يمتنع لو الزيادة متصلة لم تتولد اتفاقا كصبغ وبناء، والمنفصلة المتولدة كولد وثمر وأرش وعقر تمنع الرد وكذا تمنع الفسخ بسائر أسباب الفسخ، والمنفصلة التي لم تتولد ككسب وغلة لا تمنع الرد والفسخ بسائر أسبابه اهـ۔ [تنبيه]: قال في الحاوي: تقايلا البيع في الثوب بعدما قطعه المشتري وخاطه قميصا أو في الحديد، بعدما اتخذه سيفا لا تصح الإقالة كمن اشترى غزلا فنسجه أو حنطة فطحنها، وهذا إذا تقايلا على أن يكون الثوب للبائع، والخياطة للمشتري يعني يقال للمشتري: افتق الخياطة وسلم الثوب لما فيه من ضرر المشتري فلو رضي بكون الخياطة للبائع بأن يسلم الثوب إليه كذلك يقول تصح اهـ۔
*درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (1/ 169):*
ومن موانع الإقالة تبدل الاسم كما إذا اشترى رجل من آخر خيوطا أو قمحا فنسج من الخيوط ثوبا أو طحن القمح وصار اسم تلك الخيوط ثوبا والقمح دقيقا أو اشترى ثوبا فخاطه قميصا فالإقالة في هذه المبيعات التي تبدلت أسماؤها غير صحيحة هذا إذا بنيت الإقالة على أن يرد الأصل للبائع فقط دون الزيادة كأن يقال للمشتري مثلا: افتق الخياطة وسلم الثوب للبائع على ما في هذا من الضرر للمشتري فلو بنيت الإقالة على رد الأصل والزيادة للبائع كأن يسلم الثوب إلى البائع بعد أن صيره المشتري قميصا كما هو صحت الإقالة رد المحتار الأنقروي .