مفتی صاحب!
1) اس میں اجرت فیصد کے حساب سے طے کرنے میں ناجائز ہونے کی وجہ کیا ہے ؟
2) اس مشین کو اگر اجارہ پر دے دیں تو اس میں جو بھی توڑ پھوڑ ہو یا اس میں دھاگے وغیرہ لگانے ہوں تو کیا وہ بھی مالک دے گا؟
واضح رہے کہ ہر وہ چیز جو اجارہ (کرایے) پر دی جائے اس کی اجرت طے اور متعین ہونا شرعاً ضروری ہے، جب اجرت فیصد کے اعتبار سے طے کی جائے گی تو وہ مجہول رہے گی، لہذا فیصد کے اعتبار سے اجرت طے کرنا شریعت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے جائز نہیں ۔
(2)کرایہ پر دی گئی چیز میں اگر اجارہ کی مدت کے اندر کوئی ایسی رکاوٹ پیش آ جائے جس سے اس کے مطلوبہ استعمال میں خلل آرہا ہو تو اس رکاوٹ کا ازالہ مالک کے ذمے ہے اور مستأجر(کرایہ دار ) پر لازم ہے کہ اجارہ پر دی ہوئی چیز کی حفاظت کرے اور اجارہ کی مدت گزرنے کے بعد وہ چیز مالک کو صحیح، سلامت واپس کرے۔
لہٰذا اگر اس مشین میں توڑ پھوڑ کرایہ دار کی غفلت یا بے احتیاطی کی وجہ سے ہو تو اس کی ذمہ داری کرایے دار پر ہوگی، لیکن اگر اس کی احتیاط کے باوجود کوئی خرابی آ جائے تو وہ مالک کے ذمہ ہوگی، البتہ دھاگے وغیرہ کی فراہمی بہر حال کرایے دار کے ذمے ہے ۔
*الشامية:(6/5،ط:دار الفکر)*
"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
(قوله: وشرطها إلخ) هذا على أنواع: بعضها شرط الانعقاد، وبعضها شرط النفاذ، وبعضها شرط الصحة، وبعضها شرط اللزوم، وتفصيلها مستوفى في البدائع ولخصه ط عن الهندية. (قوله: كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله: بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقداً منها فلو كانت كيلياً أو وزنياً أو عددياً متقارباً فالشرط بيان القدر والصفة وكذا مكان الإيفاء لو له حمل ومؤنة عنده، وإلا فلايحتاج إليه كبيان الأجل، ولو كانت ثياباً أو عروضاً فالشرط بيان الأجل والقدر والصفة لو غير مشار إليها، ولو كانت حيوانا فلا يجوز إلا أن يكون معينا بحر ملخصاً".
*وایضاً: (6 / 46،ط:دار الفکر)*
"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل".
*الدر المختار:(109/6،ط: دار الفکر)*
( وعمارة الدار ) المستأجرة ( وتطيينها وإصلاح الميزاب وما كان من البناء على رب لدر ) وكذا كل ما يخل بالسكنى ( فإن أبى صاحبها ) أن يفعل ( كان للمستأجر أن يخرج منها إلا أن يكون ) المستأجر ( استأجرها وهي كذلك وقد رآها ) لرضاه بالعيب ۔(تنوير الابصار مع الدر المختار، كتاب الاجارة، باب فسخ الاجارة.
*تحتھا الشامية:*
ولو امتلأ مسيل الحمام فعلى المستأجر تفريغه ظاهرا كان أو باطنا ۔ وفيها وتسييل ماء الحمام وتفريغه على المستأجر وإن شرط نقل الرماد والسرقين رب الحمام على المستأجر لا يفسد العقد وإن شرط على رب الحمام فتأمل ولعله مفرع على القياس أو مبني على العرف ففي البزازية وفي استئجار الطاحونة في كري نهرها يعتبر العرف۔(رد المحتار،كتاب الاجارة، باب فسخ الاجارة،مطلب اصلاح بئر الماءوالبالوعةوالمخرج.