کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے امام کے متعلق ہمارے شیخ صاحب(جوکہ جید عالم اور مفتی بھی ہے) نے فرمایا کہ اس کی امامت جائز نہیں ہے اب ہم امام کو معزول بھی نہیں کرسکتے اور قریب کوئی اور مسجد بھی نہیں ہے اور اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا دل بھی نہیں کرتا نیز اگر ہم مسجد چھوڑتے ہیں تو مسجد ویران ہوتی ہے
دریافت طلب امریہ ہے کہ ہم اس امام کےپیچھے نماز پڑھیں یا علیحدہ علیحدہ نماز پڑھیں اور ایسے امام کے متعلق شرعا ًکیا حکم ہے ؟
نوٹ : امام صاحب کی داڑھی سنت کے مطابق نہیں ہے داڑھی کاٹتے ہیں ۔
واضح رہے کہ امامت ایک عظیم منصب ہے،اس پر فائز شخص متقی،پرہیزگار اورمتبعِ سنت ہونا چاہیے،پوچھی گئی صورت میں امام صاحب کو اتباع سنت کی ترغیب دی جائے ، اگر وہ نہ مانیں اور اس کو معزول کرناممکن نہ ہو تو اس کی پیچھے نماز کراہت کے ساتھ جائز ہے ،نیز اگر قریب میں کوئی دوسری مسجد نہ ہو تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔
الدر مع رد المحتار:(1/ 557، ط: دارالفكر)
قوله ثم الاورع اي (الأكثر اتقاء للشبهات) الشبهة: ما اشتبه حله وحرمته، ويلزم من الورع التقوى بلا عكس.
الشامية :(1/ 562، ط : دارالفكر)
(نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي .
الشامية : (1/ 559، ط : دارالفكر)
(ولو أم قوما وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريما لحديث أبي داود «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما وهم له كارهون .... قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد .