السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال ہے کہ کیا ڈراپ شپنگ کا کام کرنا حلال ہے؟ جس میں آپ ایک ایپ سے سستی چیز لے کر دوسری ایپ پر اپنا مارجن رکھ کر سیل کرتے ہیں لیکن اس میں مال پہلی ایپ سے اسی پتے پر پہنچاتے ہیں جس نے خریدنا ہو ، بیچنے والا مال کو دیکھے اور اپنے قبضے میں لائے بغیر ہی دوسری ایپ پر سیل کر دیتا ہے۔
واضح رہے کہ خرید و فروخت کے شرعا جائز ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بیچنے والا جس چیز کو بیچ رہا ہے، وہ اس کی ملکیت اور حسی یا معنوی قبضے میں ہو اور اگر وہ کسی ایسی چیز کو بیچتا ہے، جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے تو یہ بیع درست نہیں، لہذا منقولی اشیا کو قبضہ سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں اور اگر بغیر دیکھے کسی نے خریدا تو بعد میں خریدار کو اختیار ہوگا، چاہے رکھے یا واپس کر دے۔
البتہ اس کے جواز کی دو صورتیں ہیں۔
(1) ڈراپ شپنگ کا روبار کرنے والا معاملہ کی ابتدا میں اپنے گاہک کو یہ نہ کہے کہ میں آپ کو یہ چیز بیچ رہا ہوں، بلکہ یہ چیز بیچنے کا وعدہ کرے، اس طرح یہ وعدہ بیع ہو جائے گا اور معاملہ جائز ہو جائے گا ۔
(۲)دوسری صورت وکالت کی ہے، کہ مطلوبہ چیز خرید کر کسٹمر کو دے اور گاہک تک پہنچانے اور اپنی محنت کی طے شدہ اجرت لے ۔
*الصحيح البخاري:(2/ 751،ط: السلطانيه)*
عن ابن عمر رضي الله عنهما:
أن النبي صلى الله عليه وسلم قَالَ: (مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ). زَادَ إِسْمَاعِيلُ: (مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يبعه حتى يقبضه).
*سنن الترمذي:(2/ 515،ط:دارالغرب الاسلامي)*
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ - حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «لَا يَحِلُّ سَلَفٌ» وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.
*الشامية: (5/ 73،ط: دارالفكر)*
قوله وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالا أو مؤجلا هداية، وقيد بقوله وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لا يجوز.
*ايضا:(4/ 528،ط:دارالفكر)*
(وإذا وجدا لزم البيع) بلا خيار إلا لعيب أو رؤية.
*الهندية:(3/ 57،ط: دارالفكر)*
«شراء ما لم يره جائز كذا في الحاوي وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا وصفته كذا والدرة التي في كفي هذه وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقبة. وأما إذا قال: بعت منك ما في كمي هذا أو ما في كفي هذه من شيء هل يجوز هذا البيع؟ لم يذكره في المبسوط قال عامة مشايخنا: إطلاق الجواب يدل على جوازه عندنا كذا في المحيط من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء.