السلام علیکم
قمیض کی آستین پر پرندے کی بیٹ دکھی جو کہ تقریبا" ایک درہم کے قریب ہوگی پھر اسے بھول گئے اور دو نمازیں ادا کرنے کے بعد بیٹ کو آستین سے جدا کیا گیا, یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کونسے پرندے کی بیٹ تھی لہذا دونوں نمازوں کا اعادہ آئے گا یا نہیں؟
جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
حلال پرندوں جیسے کبوتر، چڑیا وغیرہ کی بیٹ پاک ہے، سوائے مرغی، بطخ اور مرغابی کے، کیونکہ ان کی بیٹ نجاستِ غلیظہ ہے،اگر نجاستِ غلیظہ پتلی ہوتو پھیلاؤ میں 5.94 سینٹی میٹر (یعنی ایک روپے کے بڑے سکے کے بقدر ) معاف ہے،جس کی پیمائش یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ ہتھیلی میں پانی لے کر ہتھیلی کو پھیلایا جائے تو اطراف کا پانی گر جانے کے بعد ہتھیلی کے گہراؤ کےجتنے حصے میں پانی باقی رہ جائے اتنی مقدار درہم کی پیمائش ہےاور معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر دھوئے بغیر بھی نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی، لیکن علم ہوتے ہوئے اسے دھوئے بغیر نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور اگر نجاست ہتھیلی کے پھیلاؤ (ایک درہم) کے برابر ہو تو جانتے ہوئے اس کے ساتھ نماز ادا کرنا مکروہ ہوگا اور اگر اس سے زیادہ ناپاکی لگی ہو اور نماز ادا کرلی گئی تو اسے پاک کرکے نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔
گاڑھی نجاست غلیظہ، جیسے پاخانہ وغیرہ وزن میں ساڑھے چار ماشہ(4.374 گرام) تک معاف ہے، بغیر دھوئے نماز درست ہے اور اگر اس سے زیادہ لگ جائے تو معاف نہیں، بغیر دھوئے نماز درست نہیں۔
حلال جانور اورحرام پرندوں جیسے چیل، کوّا وغیرہ کی بیٹ نجاستِ خفیفہ ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا جسم کے چوتھائی سے کم حصہ پر لگی ہو تو معاف ہےاور اگر چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو دھونا واجب ہے ، مثلاً اگر آستین میں لگی ہے تو آستین کے چوتھائی سے کم ہو اور اگر ہاتھ میں لگی ہے تو ہاتھ کے چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے۔
اس تفصیل کے مطابق پوچھی گئی صورت میں اگر بیٹ کی مقدار کپڑے یا عضو کے ایک چوتھائی سے کم تھی تو نجاست لگے ہونے یا ہلکا سا دھونے کی حالت میں نماز درست ہوگئی، قضا کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر بیٹ کی مقدار ایک چوتھائی کے برابر یا اس سے زیادہ تھی تو اسے مکمل دھو کر پاک کرنا ضروری تھا،لہٰذا اس صورت میں نماز درست نہیں ہوئی، اگر وہ نماز نہیں دہرائی گئی تو اب قضا کرنا ضروری ہے۔
الدر المختار مع ردالمحتار: (318/1،ط: دار الفكر)*
«(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل فيفرض، والعبرة لوقت الصلاة لا الاصابة على الاكثر. نهر (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي،وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ ... (وعفي دون ربع) جميع بدن و (ثوب) ولو كبيرا هو المختار، ذكره الحلبي، ورجحه في النهر على التقدير بربع المصاب كيد وكم وإن قال في الحقائق وعليه الفتوى (من) نجاسة (مخففة كبول مأكول) ومنه الفرس، وطهره محمد (وخرء طير) من السباع أو غيرها (غير مأكول) وقيل طاهر وصحح،ثم الخفة إنما تظهر في غير الماء فليحفظ.
*ردالمحتار:(320/1)*
(وخرء) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي (ودجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولا فطاهر وإلا فمخفف.
(قوله: فإن مأكولا) كحمام وعصفور. (قوله: فطاهر) وقيل: معفو عنه لو قليلا لعموم البلوى، والأول أشبه، وهو ظاهر البدائع والخانية حلية. (قوله: وإلا فمخفف) أي: وإلا يكن مأكولا كالصقر والبازي والحدأة، فهو نجس مخفف عنده مغلظ عندهما، وهذه رواية الهندواني. وروى الكرخي أنه طاهر عندهما مغلظ عند محمد، وتمامه في البحر ويأتي.
*بدائع الصنائع:(62/1،ط:دارالکتب العلمیة)*
(وما) يذرق في الهواء نوعان أيضا: ما يؤكل لحمه، كالحمام، والعصفور، والعقعق، ونحوها، وخرؤها طاهر، عندنا.