السلام علیکم مفتی صاحب!
ہمارے پاس ایک گائے کی بچی ہے، ہم نے اس کو ایک ساتھی کو دے دیا ہے اور اس سے ہم نے یہ بات کی ہے کہ اس کا ایک وقت کا دودھ اپ کا اور ایک وقت دودھ ہمارا بچہ جننے کے بعد اور ایک بچہ آپ کا ہوگا اور ایک بچہ ہمارا ہوگا، لیکن اس کو گھاس بھوسا وغیرہ پالنے والے کھلائیں گے ،ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں دیں گے۔
اس مسئلے کی رہنمائی فرما دیجیے۔
کسی شخص کو جانور اس شرط پر دینا کہ وہ اس کی پرورش کرے، چارہ کھلائے اور دیکھ بھال کرےاور بدلے میں جو بچہ پیدا ہو، وہ دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو، یا اگر دو بچے ہوں تو ایک مالک کا اور ایک پرورش کرنے والے کا ہو،یہ معاملہ جائز نہیں اور اگر ہو چکا ہو تو اسے فوراً فسخ کرنا لازم ہے۔
اگر فسخ سے پہلے جانور کا بچہ پیدا ہو گیا ہو تو وہ بچہ اصل مالک کا شمار ہوگا، پرورش کرنے والے کو اس کی اجرتِ مثل (یعنی اس کام کی بازار میں جو قیمت دی جاتی ہے۔)دی جائے گی اور اگر چارہ اپنے خرچ پر خریدا ہو یا اپنی ملکیت سے کھلایا ہو تو اس کی قیمت بھی ادا کی جائے گی۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ جانور کا مالک پرورش کرنے والے شخص کو جانور کا آدھا حصہ فروخت کر دے، اس کے بعد دونوں شریک بن جائیں، پھر پرورش کی ذمہ داری ایک شریک لے اور جو خرچ آئے (چارہ وغیرہ)، وہ دونوں برابر، برابر برداشت کریں،اس صورت میں جانور سے حاصل ہونے والا نفع، مثلاً: بچہ، دودھ یا اون ،سب دونوں کے درمیان برابر تقسیم ہوں گے، بعد میں اگر شرکت ختم کرنا چاہیں تو کوئی ایک اپنا حصہ دوسرے کو بیچ دے، یا جانور بیچ کر رقم آپس میں تقسیم کرلیں۔
المحيط البرهاني:(43/6،ط: دارالکتب العلمیة)*
ولو أن رجلًا دفع دابة إلى رجل ليؤاجرها؛ على أن ما آجرها من شيء، فهو بينهما نصفان، فهذه الشركة فاسدة، والأجر كله لرب الدابة، وللذي آجرها أجر مثل عمله.
*ايضاً*
والحيلة أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل، ونصف الدجاجة ونصف بذر العلق بثمن معلوم حتى تصير البقرة وأجناسها مشتركة بينهما، فيكون الحادث منهما على الشركة.
*الھندیة:(335/2،ط: دار الفكر )*
وعلى هذا إذا دفع البقرة إلى إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين فما حدث فهو لصاحب البقرة ولذلك الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فيما قام عليها .