السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں اسکول وین سروس جون جولائی کی فیس لیتی ہے، جبکہ بچے کے والدین کو شروع میں بتا دیا جاتا ہے، جبکہ فیس کارڈ پر بھی لکھا گیا ہے، مگر کچھ لوگ پھر بھی نہیں دیتے جبکہ عام رواج فیس دینے کا ہے
پوچھنا یہ ہے کہ یہ فیس لینا جائز ہے کہ نہیں ؟اگر وہ انکار کریں فیس دینے سے تو وہ گناہ گار ہونگے کہ نہیں یہ حق دبانے کے زمرہ میں آئے گا کہ نہیں ؟وین سروس والے اس کے وصولی کے لیے زبردستی کرسکتے ہیں کہ نہیں؟
1) واضح رہے کہ اگر اسکول وین کے مالکان اور سرپرستوں کے درمیان شروع میں ہی یہ معاہدہ ہو جائے کہ چھٹیوں سمیت سال بھر کی فیس لی جائے گی، یا پھر اس بات کا عرف (رواج) موجود ہو کہ چھٹیوں میں بھی فیس دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں فیس لینا جائز ہے۔
2) فیس ان کا حق ہے شریعت نے کسی کا حق دبانے سے منع فرمایا ہے، اس لیے ان کا حق ان کو دینا چاہیے۔
3) اپنے حق کے لیے وہ قانونی کارروائی کرسکتے ہیں ۔
المحیط البرھانی:(586/7،ط: دارالکتب العلمية)*
والأجير الخاص: من يستحق الأجر بتسليم النفس. وبمضي المدة، ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر.
*فتح القدير:(128/9،ط: دارالفكر)*
قال: (والأجير الخاص الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم).
*الشامية:(372/4،ط: دارالفكر)*
وهل يأخذ أيام البطالة كعيد ورمضان لم أره وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي. واختلفوا فيها والأصح أنه يأخذ؛ لأنها للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة.
مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم البطالة (قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب البطالة، وأيام التدريس قليلة.