دس محرم کو لوگ بہت ساری باتیں بتاتے ہیں کہ اس دن یہ واقعہ ہوا ، اس دن یہ ہوا ، مثلا حضرت آدم علیہ السلام کا توبہ قبول ہونا ، ابراہیم علیہ السلام کا آگ سے بچنا وغیرہ ان باتوں کی دس محرم کے ساتھ کیا تعلق ہے
ان واقعات میں سے پایۂ ثبوت تک پہنچنے والا صرف حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سے نجات ملنے کا واقعہ ہے، جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے حدیث کی معتبر کتابوں میں ہے۔
اس کے علاوہ کچھ واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں، جن کو کسی درجے میں قبول کیا جاسکتا ہے، علامہ عبدالحی لکھنوی نے لکھا ہے۔
وہ یہ ہیں:
۱۔ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ دس محرم کو قبول فرمائی۔
۲۔ حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات ملی اور ان کی کشتی جودی پہاڑ پر رکی ۔
۳۔ فرعون کے جادوگروں کی توبہ قبول ہوئی۔
۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ باقی جتنی بھی طویل احادیث ہیں، جن میں عاشورہ کی طرف منسوب ماضی اور مستقبل کے واقعات کا تذکرہ ہے، جن کو بہت سے مورخین اور ارباب سلوک جیسے فقیہ ابو اللیث سمرقندی نے تنبیہ الغافلین میں ذکر کیا ہے، وہ سب غیر مستند، جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔
*الآثارالمرفوعة لعبد الحي اللكنوي:(95،ط:دارالكتب العلمية)*
قلت الذي ثبت بالأحاديث الصحيحة المروية في الصحاح الستة وغيرها أن الله تعالى نجى موسى على نبينا وعليه الصلاة والسلام من يد فرعون وجنوده وغرق فرعون ومن معه يوم عاشوراء ومن ثم كانت اليهود يصومون يوم عاشوراء ويتخذونه عيدا وقد صام النبي حين دخل المدينة ورأى اليهود يصومونه وأمر أصحابه بصيامه وقال نحن أحق بموسى منكم ونهى عن اتخاذه عيدا وأمر بصوم يوم قبله أو بعده حذرا من موافقة اليهود والتشبه بهم في إفراد صوم عاشوراء وثبت بروايات أخر في لطائف المعارف لابن رجب وغيره أن الله قبل توبة آدم على نبينا وعليه الصلاة والسلام وثبت برواية أخرى أن نوحا على نبينا وعليه الصلاة والسلام استوت سفينته على الجودي يوم عاشوراء كما في الدر المنثور وغيره معزوا إلى أحمد وأبي الشيخ وابن مردويه وابن جرير والأصبهاني وغيرهم وفي رواية للأصبهاني في كتاب الترغيب والترهيب أن يوم ولادة عيسى يوم عاشوراء كما في الدر المنثور أيضا وأما هذه الأحاديث الطوال التي ذكر فيها كثير من الوقائع العظيمة الماضية والمستقبلة أنها في يوم عاشوراء فلا أصل لها وإن ذكرها كثير من أرباب السلوك والتاريخ في تواليفهم ومنهم الفقيه أبو الليث ذكر في تنبيه الغافلين حديثا طويلا في ذلك وكذا ذكر في بستانه فلا تغتر بذكر هؤلاء فإن العبرة في هذا الباب لنقد الرجال لا لمجرد ذكر الرجال.