دس محرم کو بہت سارے لوگ روزہ رکھتے ہیں اس کی کیا وجہ اور کیا فضیلت ہے ؟
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھے تو مستحب یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور بھی رکھے، چاہے نو محرم کا روزہ ہو یا گیارہ کا۔
*کیا صرف دس محرم کا روزہ رکھنا گناہ ہے؟*
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھنا گناہ ہے، لہذا یوم عاشوراء سے پہلے یا بعد میں ایک روزہ ملایا جائے، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ دس محرم کے ساتھ ایک اور روزہ ملانا لازم اور ضروری نہیں، بلکہ صرف اولیٰ اور افضل ہے، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فضیلت بیان کی ہے، وہ صرف دس محرم کے روزے ہی سے حاصل ہوتی ہے، البتہ یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے ایک اور روزہ ملانا ایک اضافی فضیلت اور مستحب درجے کا عمل ہے۔
بعض فقہائے کرام نے تنہا دس محرم کے روزے کو مکروہ تنزیہی کہا ہے، لیکن اکثر ائمہ کے نزدیک مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے، اس لیے کہ مسلمانوں کے ذہن میں تنہا عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیت کی مشابہت کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا، لہٰذا جو شخص عاشوراء سے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنے کی ہمت رکھتا ہو تو وہ پہلے یا بعد میں ایک روزہ ملا کر رکھے اور اولیت وافضلیت حاصل کرے، لیکن جو ہمت نہ رکھتا ہو، یا اور کوئی عذر ہو تو اسے تنہا عاشوراء کا روزہ رکھ لینا چاہیے، تاکہ اس کی فضیلت سے محرومی نہ ہو۔
حضرت محدث العصر علامہ محمد يوسف بنورى رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:
۱۔نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے۔
۲۔نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔
۳۔صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے تو حضرت شاہ انور شاہ کشمیری صاحب نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے، اسی کو فقہائے کرام نے کراہت سے تعبیر کردیا، ورنہ جس روزے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو، اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔
*خلاصہ کلام*
دس محرم یعنی عاشورہ کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ نو محرم یا گیارہ محرم کا ملانا افضل اور بہتر ہے، تاہم اگر کسی نے عذر کی وجہ سے صرف دس محرم کا روزہ رکھ لیا تو وہ اس کی فضیلت سے محروم نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع: (79/2، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) و كذا في رد المحتار: (375/2، ط: دار الفکر، بیروت)*
وكره بعضهم صوم يوم عاشوراء وحده لمكان التشبه باليهود، ولم يكرهه عامتهم، لأنه من الأيام الفاضلة، فيستحب استدراك فضيلتها بالصوم.
*معارف السنن لمحدث العصر يوسف البنوري: (437/5، ط: مجلس الدعوة و التحقيق الإسلامي)*
ان الأفضل صوم عاشوراء و صوم يوم قبله و صوم يوم بعده، ثم الأدون منه: صوم عاشوراء و صوم يوم قبله أو صوم يوم بعده، ثم الأدوان منه: صوم عاشوراء منفردا و الصور الثلاث كلها عبادات بعضها فوق بعض.....قال الشيخ: و أما ما ذكر في " الدر المختار" من كراهة صوم عاشوراء منفردا فيتاول فيه بأنها عبادة مفصولة من القسمين و لا يحكم بكراهته.
*فتاويٰ قاسمیة بتغییر: (596/11، ط: مکتبة اشرفیة، دیوبند، الہند)*