السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں لباس پر گندے پانی کی چہینٹے پر جانے سے نماز ہو جاتی ہے ؟
یا جس جگہ چہینٹے پری ہے جہاں تک علم ہو اس حصے کو دھو لینے سے یا تین مرتبہ صاف پانی کی چہینٹے مارنے سے نماز ہو جاتی ہے ؟
واضح رہے کہ راستے میں چلتے ہوئے اگر کسی کے کپڑوں پر پانی کی چھینٹیں پڑ جائیں اور وہ پانی گٹر کا ہو تو وہ ناپاک ہے، اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہو تو کپڑوں کو پاک کرنے کے لیے اس حصے کا دھونا ضروری ہوگا۔
اسی طرح اگر گٹر کا پانی بارش کے پانی میں مل گیا ہو اور اس میں نجاست کی علامت، جیسے بدبو یا رنگ، واضح طور پر موجود ہو تو وہ پانی بھی ناپاک ہی شمار ہوگا، لیکن اگر بارش کا صاف پانی سڑک یا کسی اور جگہ پر جمع ہو کر صرف مٹی وغیرہ کی وجہ سے گدلا ہو گیا ہو اور اس میں نجاست کا کوئی اثر (بدبو یا رنگ) ظاہر نہ ہو تو ایسی چھینٹیں معاف ہوں گی، کیونکہ ان سے بچنا عمومًا مشکل ہوتا ہے۔
الشامية:(316/1،ط:دارالفكر)
(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل.
قوله: وعفا الشارع) فيه تغيير للفظ المتن؛ لأنه كان مبنيا للمجهول، لكنه قصد التنبيه على أن ذلك مروي لا محض قياس فقط.
قال في شرح المنية: ولنا أن القليل عفو إجماعا، إذ الاستنجاء بالحجر كاف بالإجماع وهو لا يستأصل النجاسة، والتقدير بالدرهم مروي عن عمر وعلي وابن مسعود، وهو مما لا يعرف بالرأي فيحمل على السماع
ایضاً:(318/1،ط:دارالفكر)
(وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم
(وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي،
الهندية:(1/ 45،ط:دار الفكر)
«المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف.