السلام علیکم
مفتیان کرام! میں نے ایک شخص کو 10 ہزار روپے ایزی پیسہ کیے بطور قرض اب اس نے مجھے 10 ہزار اک سو روپے واپس ایزی پیسہ کی ہے اب اگر میں کسی دکاندار سے یہ پیسے نکلواؤں تو وہ 10 ہزار پر ایک سو روپے لیتا ہے اب یہ 100 روپے میرے لیے لینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب باسم ملہم باالصواب
واضح رہے کہ قرض کی رقم سے نفع چونکہ قرض لینے والا اٹھاتا ہے، لہذا قرض لینے اور اس کی واپسی پر آنے والے اخراجات بھی قرض لینے والے کے ذمے ہوں گے۔
ذکر کردہ صورت میں اگر آپ نے قرض،مقروض کی رضامندی سے بذریعہ ایزی پیسہ بھیجا ہے تو اس صورت میں آپ کے لیے 100روپے اضافی چارجز کے ساتھ قرض واپس لینا جائز ہے، البتہ اگر اس کی رضامندی کے بغیر آپ نے بذریعہ ایزی پیسہ قرض بھیجا ہے تو اس صورت میں اضافی چارجز آپ پر ہوں گے،مقروض سے لینا جائز نہیں۔
دلائل:
البحر الرائق:(7/283،ط:دارالکتاب الاسلامی)
(قوله ومؤنة الرد على المستعير) لأن الرد واجب عليه لما أنه قبضه لمنفعة نفسه والأجرة مؤنة الرد فتكون عليه وفائدة كونها على المستعير تظهر أيضا فيما لو كانت العارية مؤقتة فمضى الوقت فأمسكها المستعير فهلكت ضمنها لأن مؤنة الرد عليه كذا في النهاية.
المعاییر الشرعیة: (رقم:19,ص523)
يجوز للمؤسسة المقرضة أن تأخذ على خدمات القروض ما يعادل مصروفاتها الفعلية المباشرة، ولا يجوز لها أخذ زيادة عليها، وكل زيادة على المصروفات الفعلية محرمة.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ حنفیہ کراچی