حضرت یہ ایک ایکسچینج کمپنی والے ییں وہ مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ہماری ایکسچینج میں اپنا اکاؤنٹ کری ایٹ کریں اور دیگر لوگوں سے کروائیں اور ہمارے ساتھ سرمایہ کریں اور دیگر لوگوں سے بھی کروائیں ہم آپ کو ازخود کی انویسٹمنٹ پر بھی پرافٹ دیں گے اور جتنے آپ کی وجہ سے ہماری کمپنی میں اکاؤنٹ کری ایٹ کریں گے اس کا کمشن بھی دیں گے اور جنہوں نے آپ کے توسط سے ہماری کمپنی کا اکاؤنٹ کری ایٹ کرکے جتنی جتنی سرمایہ کاری کریں گے اس کے بقدر کمیشن بھی دیں گے جس پر میں نے اپنے اشکالات کا ان سے اظہار کیا جس کے تحت انہوں نے مندرجہ بالا سوالات کا جواب مجھ سے آپ مفتی صاحبان کے ذریعے دریافت کرنے کا کہا ہے
کائنڈلی آپ بذات خود میری بھی رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور ان کمپنی والے کے سوالات کا بھی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر مشکور فرمائیں(جزاک اللہ)
الجواب باسم ملہم بالصواب
واضح رہے اگر ایکسچینج کمپنی کا کاروبار فی نفسہ حلال ہے اور کمپنی نقدی اثاثہ کے علاوہ منجمد اثاثہ کی ملکیت بھی رکھتی ہے تو ایسی کمپنی میں خود بھی سرمایہ کاری کرنا جائز ہے اور دوسروں سے سرمایہ کاری کرواکر اس پر کمیشن لینا بھی جائز ہے،لیکن چین در چین سرمایہ کاری کرنے والے حضرات سے آپ کے لیے کمیشن لینا جائز نہیں، کیونکہ ان کی سرمایہ کاری میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں۔
دلائل:
الشامیة:(6/ 63،ط:دارالفکر)
وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.
المحيط البرهاني: (7/ 11،ط:دارالکتب العلمیۃ )
وأجرة السمسار تضم إن كانت مشروطة في العقد بالإجماع، وإن لم تكن مشروطة بل كانت موسومة، أكثر المشايخ على أنها لا تضم، ومنهم من قال: لا تضم أجرة الدلال بالإجماع، بخلاف أجرة السمسار إذا كانت مشروطة في العقد.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ حنفیہ (نعمان بن ثابت) اورنگی ٹاؤن کراچی