سوال : كيا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص کےجسم کے کسی حصے پر ایسا زخم ہو کہ اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں اس سے رطوبت نکلتی ہو تواس شخص کے وضو کا کیا حکم ہے ؟
پوچھی گئی صورت میں اگر زخم کے منہ سے مسلسل پیپ نکل رہی ہو اور خون اس تسلسل سے بہتا ہو کہ یہ شخص مکمل پاکی کی حالت میں وضو کر کے ایک فرض نماز بھی ادا نہ کر سکتا ہو، تو ایسا شخص شرعاً معذور کہلائے گا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت نیا وضو کر لیا کرے اور جب تک اس نماز کا وقت باقی رہے گا، اس کا وضو بھی باقی رہے گا۔ اس دوران زخم سے جتنا بھی خون یا پیپ نکلے، وہ معاف ہوگا، بشرطیکہ کوئی اور ایسی چیز نہ پائی جائے جو وضو کو توڑ دیتی ہو۔ جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا، اس کا وضو بھی ختم ہو جائے گا، اور اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔
الدر المختار شرح تنوير الأبصار:(ص23، ط : دارالفكر )
(وينقضه خروج) كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:(1/ 24، ط :دارالكتب العلمية )
فالحدث هو نوعان: حقيقي، وحكمي أما الحقيقي فقد اختلف فيه، قال أصحابنا الثلاثة: هو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء كان من السبيلين الدبر والذكر أو فرج المرأة، أو من غير السبيلين الجرح، والقرح، والأنف من الدم، والقيح، والرعاف، والقيء .
الفتاوى الهندية:(1/ 11، ط : دارالفكر)
ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل إذا خرج من الجرح دم قليل فمسحه ثم خرج أيضا ومسحه فإن كان الدم بحال لو ترك ما قد مسح منه سال انتقض وضوءه .
فتاوي قاضي خان :
الفقه الحنفي في ثوبه الجديد :
فتاوي تاتارخانيه :
البناية شرح الهداية: (2/ 384، ط: دارالكتب العلمية )
هذا جواب عن قول الشافعي فأشبه الحدث العمد، تقريره أن البلوى أي البلية في الحدث يقال: لحصوله بغير فعله فيجعل فيه مقدورا م: (دون ما يتعمده).