کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں اگر کوئ شخص امام کے ساتھ نماز میں حاضر ہوا درآںحالیکہ امام رکوع میں تھا تو اس دوران کیا مقتدی پر ہاتھ باندھنا فرض ہے نیز اگر ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں چلا گیا تو کیا قیام بغیر ہاتھ باندھے ساقط ہوجائیگی؟ رہنمائ فرمائیں ۔۔
الجواب باسم ملہم الصواب
جو شخص ایسے وقت میں جماعت میں حاضر ہوا،جب امام رکوع کی حالت میں تھا تو اس کے لیے جماعت میں شریک ہونے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہو کر، تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں شریک ہو جائے اور ہاتھ باندھ لے، پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے، تاہم اگر کوئی تکبیرِ تحریمہ کہہ کر ایک دفعہ سبحان اللّہ کہنے کی مقدار کھڑا رہا اور ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں شریک ہو گیا تو اس کا قیام ہوگیا،یعنی اس سے قیام کی فرضیت ادا ہو گئی اور نماز درست ہوگئی۔
دلائل:
الشامیة: (1/ 445،ط:دارالفکر)
"فلو كبر قائمًا فركع ولم يقف صح؛ لأن ما أتى به القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه، قنية.
(قوله: فركع) أي وقرأ في هويه قدر الفرض أو كان أخرس أو مقتديًا أو أخر القراءة.
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 455،ط:دارالکتب العلمیة)
"ومن أدرك إمامه راكعًا فكبر ووقف حتى رفع الإمام رأسه" من الركوع أو لم يقف بل انحط بمجرد إحرامه فرفع الإمام رأسه قبل ركوع المؤتم "لم يدرك الركعة" كما ورد عن ابن عمر رضي الله عنهما.
قوله: "فرفع الإمام رأسه" مراده أنه رفع قبل أن يشاركه المؤتم في جزء من الركوع وإلا فظاهر التعبير بالفاء أن الرفع تحقق بعد الإنحطاط وحينئذ تحقق المشاركة فتكون الصلاة صحيحة قوله: "كما ورد عن ابن عمر رضي الله عنهما" ولفظه إذا أدركت الإمام راكعا فركعت قبل أن يرفع رأسه فقد أدركت الركعة وإن رفع قبل أن تركع فقد فاتتك الركعة".
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی