یاماہا(Yamaha) اور سوزوکی(Suzuki) کمپنی قسطوں پر موٹر سائیکل دیتی ہیں، قسطوں کی ادائیگی تک ملکیت کمپنی کے پاس رہتی ہے، خریدار کے پاس صرف اتھارٹی لیٹر ہوتا ہے اور اس دوران حادثہ یا چوری پر انشورنس کمپنی سے رقم کمپنی وصول کرتی ہے، کیا اس طرح موٹر سائیکل خریدنا شرعاً جائز ہے؟
قسطوں پر کسی چیز کی خرید و فروخت شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ معاملہ صاف، واضح اور شرعی اصولوں کے مطابق ہو۔
اس کے جواز کے لیے چند شرائط کی پابندی ضروری ہے:
اوّل: اس چیز کی مجموعی قیمت فریقین کی باہمی رضامندی سے طے کر لی جائے، چاہے یہ قیمت نقد قیمت کے مقابلے میں زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
دوم: قسطوں کی مدت متعین ہو۔
سوم: ہر قسط کی رقم اور ادائیگی کی تاریخ پہلے سے مقرر ہو، تاکہ معاملے میں کوئی ابہام نہ رہے۔
چہارم: اگر خریدار کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو اس پر بطورِ جرمانہ اضافی رقم لینے کی شرط نہ رکھی جائے، کیونکہ یہ سود ہے، جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
لہٰذا ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے قسطوں پر خرید و فروخت جائز ہے، لیکن اگر ان میں سے کوئی شرط ساقط کر دی جائے، یا ان کی خلاف ورزی کی جائے تو معاملہ ناجائز ہو جائے گا۔
لیکن اگر اس کے ساتھ انشورنس کی پالیسی کی جائے تو یہ ناجائز اور حرام ہے، اس لیے کہ انشورنس کی موجودہ شکل سود، جوا اور دھوکے پر مشتمل ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں یا ماہا کمپنی سے قسطوں پر موٹر سائیکل خریدنا جائز ہے، لیکن اپنی مرضی اور اختیار سے انشورنس کرانا جائز نہیں، لہٰذا ایسی کمپنی سے موٹر سائیکل خریدنا چاہیے، جہاں انشورنس نہ ہو، البتہ اگر کسی ملک میں قانونی طور پر انشورنس لازمی ہو تو دل سے ناجائز سمجھتے ہوئے، اس پر مجبور شخص گناہگار نہ ہوگا اور ایسی مجبوری کی صورت میں صرف اپنی جمع شدہ رقم کے بقدر ہی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
*مجلة الأحكام العدلية:المادۃ:245،ص:50 مكتبة نور محمد*
(المادة 245) البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح
(المادة 246) يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط
(المادة 247) إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع
(المادة 248) تأجيل الثمن إلى مدة غير معينة كإمطار السماء يكون مفسدا للبيع.
*الفقه الاسلامي وادلته:(3423/5،ط: دارالفكر)*
أما التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعا، وهو رأي أكثر فقهاء العصر، وهو ما قرره المؤتمر العالمي الأولي للاقتصاد الإسلامي في مكة المكرمة عام (١٣٩٦هـ/١٩٧٦م)، وسبب عدم الجواز يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا.
أما الربا: فلا يستطيع أحد إنكاره؛ لأن عوض التأمين ناشئ من مصدر مشبوه قطعا؛ لأن كل شركات التأمين تستثمر أموالها في الربا، وقد تعطي المستأمن (المؤمن له) في التأمين على الحياة جزءا من الفائدة، والربا حرام قطعا في الإسلام.