السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتیان کرام اپ کی خیریت مطلوب ہے
حضرت پوچھنا یہ ہے کہ کسی ادمی کو پیشاب کے قطرے اتے ہوں کبھی اتے ہوں کبھی نہیں اتے تو کیا ایسا شخص نماز میں امام بن سکتا ہے یعنی وہ لوگوں کو نماز پڑھا سکتا ہے تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں شکریہ
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ جس شخص کو وضو توڑنے والی چیزوں (جیسے: پیشاب، ریح، خون کا بہنا یا پیٹ کا جاری ہونا) میں سے کوئی مستقل عارضہ لاحق ہو اور وہ ایک فرض نماز کے پورے وقت میں اتنی مہلت بھی نہ پاتا ہو کہ وضو کرکے بغیر عذر کے کم از کم فرض نماز ادا کر سکے تو شرعاً ایسا شخص معذور کہلاتا ہے اور معذور شخص غیر معذور افراد کی امامت نہیں کروا سکتا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر پیشاب کے اس قدر قطرے آتے ہوں کہ وہ کسی بھی وقت فرض نماز پیشاب کے بعد قطرے نکلے بغیر مکمل نہیں کر سکتا تو وہ معذورِ شرعی ہے اور اس کی امامت جائز نہیں،لیکن اگر یہ قطرے وضو کے فوراً بعد یا کچھ دیر تک آتے ہیں اور اس کے بعد رک جاتے ہیں اور اس دوران نماز ادا کی جا سکتی ہے تو وہ معذور شرعی نہیں،ایسی صورت میں اس کی امامت درست ہے۔
دلائل:
بدائع الصنائع:(1/ 139،المکتبة العلمیة)
«ولا يصح اقتداء الصحيح بصاحب العذر الدائم؛ لأن تحريمة الإمام ما انعقدت للصلاة مع انقطاع الدم فلا يجوز البناء، ولأن الناقض للطهارة موجود، لكن لم يظهر في حق صاحب العذر للعذر، ولا عذر في حق المقتدي.
حاشية ابن عابدين : (1/ 305،ط:دارالفکر)
«وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث.
حاشية ابن عابدين : (1/ 578،ط:دارالفکر)
«(وكذا لا يصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت) اورنگی ٹاؤن،کراچی