السلام علیکم!
مجھے پوچھنا تھا کہ میری تین بیٹیاں ہیں جو ابھی کافی چھوٹی ہیں، سب سے بڑی بیٹی آٹھ سال کی ہے۔ میرے پاس زیور رکھا ہے جو میں ان کے نام پر تقسیم کر کے رکھنا چاہتی ہوں۔تو جو زیور میں ان کے لیے رکھوں گی:اس پر مجھے زکوٰۃ کس طرح دینی ہوگی؟
اگر زکوٰۃ نہیں دینی تو پھر ان کے بالغ ہونے کے بعد کیسے دینی ہوگی؟
اور اگر میں اس زیور کو اپنی زکوٰۃ میں شامل کرنا چاہوں یا ان کے بالغ ہونے کے بعد فروخت کرنا چاہوں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ زیورات اپنی بیٹیوں کی ملکیت میں دیے بغیر صرف نام کرکے رکھنا چاہتی ہیں تو یہ زیورات بدستور آپ کی ملکیت شمار ہوں گے، لہٰذا ان کی زکوٰۃ آپ پر واجب ہوگی اور آپ کے لیے ان زیورات کو فروخت کرنا بھی جائز ہے۔
البتہ اگر آپ یہ زیورات اپنی بیٹیوں کی ملکیت میں دینا چاہتی ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے ولی (والد، والد کے نہ ہونے کی صورت میں وصی، پھر دادا، اور پھر دادا کا وصی) آپ کی بیٹیوں کی طرف سے قبضہ میں لے تو زیورات بیٹیوں کی ملکیت میں ہو جائیں گے اور چونکہ وہ نابالغ ہیں، اس لیے ان پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی اور نہ ہی آپ پر، نیز اس صورت میں آپ کے لیے اس کو استعمال کرنا یا فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
العناية:(156/2،ط:دارالفکر)
( وليس على الصبي والمجنون زكاة) خلافا للشافعي رحمه الله فإنه يقول: هي غرامةمالیة ).
بدائع الصنائع:(126/6،ط:دارالکتب العلمیة)
وأما القبض بطريق النيابة فالنيابة في القبض نوعان نوع يرجع إلى القابض ونوع يرجع إلى نفس القبض أما الأول الذي يرجع إلى القابض فهو القبض للصبي وشرط جوازه الولاية بالحجر والعيلة عند عدم الولاية فيقبض للصبي وليه أو من كان الصبي في حجره وعياله عند عدم الولي فيقبض له أبوه ثم وصي أبيه بعده ثم جده أبو أبيه بعد أبيه ووصيه ثم وصي جده بعده سواء كان الصبي في عيال هؤلاء أو لم يكن فيجوز قبضهم على هذا الترتيب حال حضرتهم لأن هؤلاء ولاية عليهم فيجوز قبضهم له.
الهندية:(392/4،ط:دارالفکر)
الموهوب له إن كان من أهل القبض فحق القبض إليه، وإن كان الموهوب له صغيرا أو مجنونا فحق القبض إلى وليه، ووليه أبوه أو وصي أبيه ثم جده ثم وصي وصيه ثم القاضي ومن نصبه القاضي، سواء كان الصغير في عيال واحد منهم أو لم يكن، كذا في شرح الطحاوي.