حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں :
صدقہ فطر (فطرانہ) اور زکواة کا علیحدہ علیحدہ نصاب تحریر فرمادیں ؟
واضح رہے کہ صدقہ فطر اور زکوۃ دو الگ الگ اور مستقل مالی عبادتیں ہیں، جس کے لیے الگ الگ نصاب مقرر ہے۔
صدقہ فطر ہراس شخص پر (اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے)لازم ہوتا ہے جو عیدالفطر کے دن صبح صادق کے وقت ضرورتِ اصلیہ اور استعمال سے زائد اتنے سامان یا مال کا مالک ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کےبرابر یا اس سے زائد ہواور اس کے وجوب کےلیے سال گزرنا شرط نہیں، جب کہ زکوۃ صرف بالغ اورمالِ نامی پر واجب ہوتی ہے ۔مالِ نامی سے مراد سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت، سائمہ جانور ہیں، مذکورہ اموال میں سے کوئی ایک نصاب تک پہنچ جائے یا مختلف اموال موجود ہونے کی صورت میں ان کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچ جائے اور وہ بنیادی ضرورت سے زائد ہو تو زکوۃ واجب ہوجاتی ہے اور قمری مہینوں کے اعتبار سے سال پورا ہونے پر زکوۃ کی ادائیگی لازم ہوگی۔
فتح القدير : (2/ 153،ط:دارالفکر)*
(الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول.
*الهندية:(1/ 191،ط:دارالفکر)*
[، وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية.