السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب یہاں ایک بندہ ہے اس نے گاڑی خریدی ہے قسطوں پر اب وہ مثلا 20 لاکھ روپے قسط ہے اور ایک سال کا وقت ہے اب وہ ایک سال وقت پورا ہونے سے پہلے مثلا پانچ مہینے میں اس کی قیمت ایک ساتھ ادا کرنا چاہتا ہے اور وہ کیا وہ اس سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اس میں سے کچھ قیمت کم کردیں اگر وہ اس کے کہنے کی وجہ سے اپنی خوشی سے کم کر دیں تو کیا یہ سود میں آئے گا
بیان کی گئی صورت میں جب آپ نے قسطوں پر معاملہ فائنل کر کے ، ادھار پر گاڑی خریدی تو اب یکمشت رقم ادا کرنے کی صورت میں بھی وہی قیمت لازم ہوگی، اس مقررہ قیمت میں کمی کرنا شرعاً جائز نہیں، البتہ اگر آپ وقت سے پہلے رقم ادا کرنے کی صورت میں بائع سے غیر مشروط طور پر گزارش کریں اور وہ اپنی مرضی و خوشی سے اس میں سے کچھ رقم کم کرے تو اسے اختیار ہے، تاہم ایسا کرنا اس پر لازم نہیں۔
نیز یہ سود کے زمرے میں بھی نہیں آئے گا۔
*الهداية :(195/3،ط: دارالتراث العربی)*
"قال و لو كانت له ألف مؤجلة فصالحه على خمسمائة حالة لم يجز لأن المعجل خير من المؤجل و هو غير مستحق بالعقد فيكون بإزاء ما حطه عنه و ذلك اعتياض عن الأجل و هو حرام.
*درر الحکام شرح مجلة الاحكام ،علی حیدر:(241/1،ط:دار الجیل)*
المادة: 256 ۔حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح و معتبر"