السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا مقتول کے ورثاء نے بدلہ لیتے ہوئے قاتل کو قتل کر دیا تو ان پر گناہ ہے یا نہیں اور اکثر قاتل کے بجائے دیگر بھائیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اس کا کیا حکم ہے
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
واضح رہے کہ اسلام میں کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنا سب سے بڑا گناہ ہے، جس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم ہے، لیکن اگر خدانخواستہ کسی شخص نے کسی کوقتل کر دیا تو مقتول کے ورثا کو چاہیے کہ وہ عدالت سے رجوع کریں اور قانون کے مطابق قاتل کو سزا دلوائیں، مقتول کے ورثا کا ازخود قاتل کو قتل کرنا جائز نہیں، کیونکہ حدود اور قصاص کا نفاذ عدالت کا کام ہے۔
اگر حکومت اپنے فرائض میں کوتاہی کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کے فیصلے عوام کریں، لہذا ورثا کی طرف سے ذاتی طور پر قاتل کو قتل کرنا خود ایک قتل ناحق ہوگا، جو شرعاً جرم ہے۔
اور واضح رہے کہ اسلام میں قصاص کا اصول یہ ہے کہ جس نے قتل کیا سزا اسی کو دی جائے گی ،قاتل کے بدلے اس کے کسی بے گناہ رشتہ دار کو قتل کرنا جائز نہیں، بشرطیکہ وہ جرم میں شریک نہ ہو۔
القرآن الکریم:(سورۃ النساء: 93:4)
﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾
القرآن الکریم:(الانعام:164:6)
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾
بدائع الصنائع:(57/7،ط: دارالكتب العلمية)
وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا.
العنايةشرح الهداية:(53/2،ط: دارالفكر)
(ولا يجوز إقامتها إلا للسلطان أو لمن أمره السلطان).