السلام علیکم محترم !
میری ایک دوکان ہے اس میں اسمیں میری ذاتی انویسٹمنٹ ہے تین لاکھ روپے اب ایک آدمی مجھے ایک لاکھ روپے اور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسکو بھی دوکان میں لگا لو اور مجھے پرافٹ دیتے رہنا اور دوکان بھی میں اکیلا ہی سنبھال رہا ہوں مکمل ٹائم میں ہی دے رہا ہوں اب پوچھنا یہ ہے کہ اس آدمی کو پرافٹ میں سے کتنا حصہ دینا ہوگا اور دوکان کا بل اور کرایہ میں اسکے پرافٹ میں سے بھی کچھ حصہ ہوگا یا نہیں براہ کرم راہنمائی فرمائیں
واضح رہے کہ مشترکہ کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ شرکت میں حاصل ہونے والے نفع کی تقسیم فیصد یا حصوں کے اعتبار سے ہو،مثلاً نفع دونوں شریکوں کے درمیان آدھا آدھا ہو،یا کسی ایک فریق کے لیے ستر فیصد اور دوسرے کے لیے تیس فیصد یا دونوں کے سرمایہ کے بقدرنفع تقسیم ہو۔
اور اگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتا ہو یا کاروبار کو زیادہ وقت دیتا ہو یا ایک ہی شریک کام کرتاہے تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانا درست ہے، لیکن جو شریک کام ہی نہیں کرتا، اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں۔
مجمع الانهر:(721/1،ط: دارإحياء التراث العربي)
(وتصح) أي شركة العنان (في نوع من التجارات) كالبر ونحوه (أو في عمومها) أي في عموم التجارات (وببعض مال كل منهما وبكله) أي وبكل مال كل منهما لعدم اشتراط التساوي.
(و) تصح (مع التفاضل في رأس المال) بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا (والربح) بأن يكون ثلثا الربح لأحدهما وثلثه للآخر.
(و) تصح (مع التساوي فيهما) أي في رأس المال والربح (وفي أحدهما دون الآخر) أي التساوي في رأس المال والتفاضل في الربح وعكسه (عند عملهما و) تصح (مع زيادة الربح للعامل عند عمل أحدهما) .
تبيين الحقائق:(318/3،ط: دار الكتاب الاسلامي)
قال رحمه الله (وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه) وهو أن يتساويا في الربح دون المال ومعناه أن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملا وإن شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز
بدائع الصنائع:(69/6،ط: دارالكتب العلمية)
(ومنها): أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.