السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سوال یہ ہے کہ ایک شخص مجھے کام کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے قرض دے رہا ہے اور میرے کام کے پرافٹ میں سے روزانہ 10 پرسنٹ مانگ رہا ہے اور اور یہ ڈیڑھ لاکھ روپے ایک سال بعد مجھ سے واپس لینے کا ایگریمنٹ کر رہا ہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے.
واضح رہے کہ قرض دینا نیکی کا کام ہے، لیکن قرض پر کسی قسم کا نفع یا فائدہ لینا شرعاً سود ہے اور سود کی حرمت قرآن و حدیث سے بالکل واضح ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص دوسرے کو ایک مخصوص مدت کے لیے قرض دے اور اس پر ہر دن یا ہر مہینے نفع حاصل کرے تو یہ سود کے حکم میں ہوگا، جو سخت حرام اور ناجائز ہے،
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کے دوست کا آپ کو پیسے دے کر ہر دن دس فیصد نفع حاصل کرنا جائز نہیں ۔
*سنن ابي داوود:(222/5،رقم الحديث 3333،ط:دار الرسالة العالمية)*
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا سماك، حدثني عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعودعن أبيه، قال: لعن رسول الله ﷺ آكل الربا وموكله وشاهده وكاتبه.
*العناية شرح الهداية:(233/12،ط:دار الكتب العلمية)*
وأخرج البيهقي أيضا من حديث إدريس بن يحيى عن عبد الله بن عياش حدثنا يزيد بن حبيب، عن أبي مرزوق النخعي عن فضالة بن عبيد أنه قال: كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا.
*المحيط البرهاني:(126/7،ط:دار الكتب العلمية)*
قال محمد ﵀ في كتاب الصرف: إن أبا حنيفة كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض عادلية صحاحًا أو ما أشبه ذلك، فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد، فأعطاه المستقرض أجود مما عليه، فلا بأس به.
*الشامية:(166/5،ط:دارالفكر)*
وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن.