مفتی صاحب! ایک مسئلہ معلوم کرنا ہےکہ ایک شخص کی اپنی ایک شاپ ہے، اس میں دس لاکھ کا سامان ہے، وہ عید کے چوتھے دن زکوۃ نکالتا ہے،بیسویں رمضان کو اس نے ایک پلاٹ خریدا، اس نیت سے کہ اس کا گھر کافی اونچی جگہ ہے، وہاں ٹینکر کا مسئلہ ہوتا ہے نئے گھر میں ٹینکی بنائے گا، اس گھر کی قیمت کی 80 فیصد ادائیگی کردی ہے اور بقیہ 20 فیصد ادائیگی 15 شوال کو کرے گا۔
پہلی بات معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس گھر کی زکوة نکلے گی؟
اور کیا 20 فیصد رقم جو باقی ہے، اس کو کس چیز میں شامل کریں گے؟
پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ نے گھر خریدا ہے اور اس کی قیمت کا کچھ حصہ ادا کر دیا ہے، جبکہ بقیہ حصہ بطور قرض باقی ہے تو ایسی صورت میں جب آپ اپنی زکوٰۃ ادا کریں گے تو بقیہ قرض کو اپنے کل مال میں سے منہا (کٹوتی) کریں گے، اس کے بعد جو رقم بچے گی، اسی پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
*الھندیة:(172/1،ط: دار الفكر )*
(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة.
*الدرالمختار:(126/1،ط: دار الفكر )*
(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم ... (نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه.
*ایضاً:(267/ 2)*
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه .... (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة».