السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ !
معلوم کرنا تھا جو لوگ فرض نماز شروع ہونے سے پہلے سنتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور فرض نماز کی اقامت ہوتی ہے، پھر ایک رکعت پڑھی جاتی ہے تب جاکر سنتیں مکمل کر کے مقتدی جماعت میں شامل ہوتا ہے ۔ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ اگر سنتوں کے دوران جماعت کھڑی ہو جائے تو اگر اس شخص نے ایک رکعت بھی نہیں پڑھی تو سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہو جائے، سنتیں بعد میں پڑھ لے، اگر ایک رکعت پڑھی ہے تو دوسری رکعت ملائے اور سلام پھیر دے اور جماعت میں شامل ہو جائے، اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرلیا ہے تو چوتھی رکعت ملائے اور امام کے ساتھ شریک ہو جائے، البتہ فجر کی سنتوں کی بہت زیادہ تاکید ہے، اس لیے اگر جماعت کھڑی بھی ہو جائے تو جب تک جماعت ملنے کی امید ہو، فجر کی سنتیں پڑھ لینا بہتر ہے۔
*سنن ابن ماجة (:232/2،رقم الحديث:1151،ط:دار الرسالة العالمية)*
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا أزهر بن القاسم (ح)وحدثنا بكر بن خلف أبو بشر، حدثنا روح بن عبادة قالا: حدثنا زكريا بن إسحاق، عن عمرو بن دينار، عن عطاء بن يسارعن أبي هريرة، أن رسول الله ﷺ قال: «إذا أقيمت الصلاة، فلا صلاة إلا المكتوبة»
*شرح مشكل الآثار:(321/10،رقم الحديث:4134،ط:مؤسسة الرسالة)*
وكما حدثنا ابن أبي داود، حدثنا سعيد بن سليمان الواسطي، حدثنا خالد بن عبد الله، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن محمد بن زيد بن قنفذ، عن ابن سيلان، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله ﷺ: «لا تتركوا ركعتي الفجر وإن طردتكم الخيل».
*الدر المختار:(54/1،ط: دارالفكر)*
(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه لحديث «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلا، وما ذكر من الحيل مردود.