السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت۔
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک صاحب کی رقم کاروبار میں ایک پارٹی کے پاس صوبہ کیرلا میں پچھلے ایک سال سے رکی ہوئ ہے۔ جسکی مقدار (270,000) دو لاکھ ستر ہزار۔ اسکے علاوہ انکے پاس کوئ ملکیت بھی نہیں ہے۔
جسمیں سے 40،000 چالیس ہزار ایک صاحب کا ادھار ہے ، تو رقم بچی 230،000۔ مزید ایک اور صاحب کا ادھار ہے جسکی مقدار 115,000 ایک لاکھ پندرہ ہزار ہے۔
اسکے بعد انکے پاس جو رقم بچتی ہے جو انکا فائدہ/ پروفٹ ہے (115،000) ایک لاکھ پندرہ ہزار۔
یہ رقم 12% GST پر دی گئ ہے ، جسکو وہ کیرلا والی پارٹی ہضم نہیں کر سکتی آج نہیں تو کل دینا ہی ہوگا ، پچلھے ایک سال سے رقم رکی ہوئ ہے مرنے کی امید نہیں ہے اور ملنے کی امید بھی 12% GST پر دینے کی وجہ سے قوی ہے ، لیکن ملیگی کب اسکا کچھ بھی پتہ نہیں۔
جب بھی وہ اپنے پیسوں کے لۓ رابطہ کرتے ہیں تو وہ ہر بار 10 دن یا 15 دن بعد دینے کو کہ دیتا ہے۔
تو کیا یہ شخص کسی صاحبِ نصاب انسان کی دی گئی زکوٰۃ استعمال میں لا سکتا ہے ، کیونکہ ابھی وہ صاحب نصاب نہیں ہے ، اور رقم ملنے کی بھی امید ہے مگر وہی بات کہ ملیگی کب ، اسکا کچھ بھی پتہ نہیں۔
واضح رہے کہ زکوٰۃ اسی شخص کو دی جاسکتی ہے جس کے پاس اپنی ضروریاتِ زندگی کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال یا سامان موجود نہ ہو، اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد مکان، پلاٹ یا اتنی مالیت کی رقم ہو تو وہ شرعاً زکوٰۃ کا مستحق نہیں رہتا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ اس آدمی کے پاس نصاب سے کم مال موجود ہے، اس لیے اس شخص کے لیے زکوۃ لینا جائز ہے ۔
*الشامية:(340/2،ط: دارالفكر)*
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي ومنقطع الحج.
*الهندية:(189/1،ط:دارالفكر )*
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من:النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية.
*البحر الرائق:(260/2،ط:دارالكتاب الإسلامي)*
لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي والمنقطع لقوله عليه السلام ويجوز دفع الزكاة لطالب العلم، وإن كان له نفقة أربعين سنة اهـ.