میں نے عید الفطراور عید الاضحی کی نماز ایک بڑے شہر میں ادا کی جہاں میں نے امام صاحب کو دوران خطبہ ایک نئی بات کرتے ہوئے دیکھا ، میں نے دیکھا کہ امام صاحب آدھا خطبہ دینے کے بعد رک گئے اورتقریرشروع کردی وہ تقریر خطبہ کا ترجمہ نہیں تھی نہ جانے کیا کیا باتیں وہ کررہے تھے یہاں تک کسی نے انہیں یاد دلایا کہ قربانی میں دیر ہورہی ہے پھر وہ کافی دیر تک بولتے رہے اور عید الفطرمیں بھی ایسا ہی ہوا، خطبہ کے بعد وہ تقریرکرنے اٹھ گئے اور تین منٹ تک نہ جانے کیا کیا بولتے رہے ۔
کیا یہ جائز ہے ؟ کیا خطبہ کے دوران اس طرح وعظ درست ہے جب کہ وہ خطبہ کے متعلق نہ ہو یا ہو ؟
واضح رہے کہ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ پڑھنا مکروہ اور بدعت ہے ۔
عمدة الرعاية علي هامش شرح الوقاية:(2/324،ط:دارالكتب العلمية)
ولا يشترط كونها بالعربية؛ فلو خطب بالفارسية أو بغيرها جاز، كذا قالوا، والمراد بالجواز هو الجواز في حق الصلاة، بمعنى أنه يكفي لأداء الشرطية، وتصح بها الصلاة، لا الجواز بمعنى الإباحة المطلقة، فإنه لا شك في أن الخطبة بغير العربية خلاف السنة المتوارثة عن النبي ﷺ والصحابة رضي الله عنهم، فيكون مكروها تحريما، وكذا قراءة الأشعار الفارسية الهندية فيها، وقد فصلنا هذا المقام في رسالتنا «أكام النفائس في أداء الأذكار بلسان الفارس».