مفتی صاحب ! میں ایک پلاٹ خریدا تاکہ اس پر کرایہ کے لیے مارکیٹ بنالوں تاہم دس سال کے عرصہ میں میں مارکیٹ کی تعمیر نہیں کرسکا ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ اس پر پلاٹ پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں ؟اور اگر واجب ہوتوکس حساب سے زکوۃ ادا کرنا ہوگا ؟
واضح رہے کہ اگر پلاٹ اس نیت سے خریدا ہے کہ اس پر مارکیٹ تعمیر کرکے کرایہ وصول لوں گا تو اس صورت میں پلاٹ کی قیمت پر زکوۃ واجب نہیں ہے اور اگر مارکیٹ کو بیچنے کی نیت سے خریدا ہے تو پھر مال تجارت ہونے کی وجہ سے گزشتہ سالوں کی زکوۃ واجب ہوگی ۔
الدرالمختارمع رد المحتار: (2/ 263، ط:دارالفكر)
فلا زكاة على مكاتب) ولا في ثياب البدن(وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة،(قوله وأثاث المنزل إلخ) محترز قوله نام ولو تقديرا، وقوله ونحوها: أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها وكالحوانيت والعقارات .
النهر الفائق :(1/ 415، ط: دار الكتب العلمية )
(و) عن (حاجته الأصلية) فسرها ابن الملك بما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقاً أو تقديراً فالثاني كالدين والأول كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرث والثياب المحتاج إليها لدفع الحر والبرد وآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن كانت له دراهم يصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة انتهى .