ہماری مسجد میں جب امام صاحب گھر جاتے ہیں توان کی غیرموجودگی میں ایک مولانا صاحب نماز پڑھاتے ہیں جن سے مقتدی ناراض ہیں اس لیے اس بار جب امام صاحب رمضان میں اپنے گھر گئے تو موذن صاحب (جوکہ مولانا اورحافظ ہیں )کو اپنا نائب بنا کر گئے اور ایک جمعہ میں موذن صاحب نے امامت کے فرائض بھی انجام دیئے لیکن پچھلے جمعہ کو وہی مولاناصاحب جن سےمقتدی ناراض ہیں آئے اور زبردستی جمعہ پڑھایا جب کہ موذن صاحب نے ان کو ساری تفصیل بتا دی تھی ایسی صورت حال میں اس مولانا کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ؟
واضح رہے کہ اگر امام صاحب میں کوئی شرعی عیب نہ ہو تو مقتدیوں کی ناراضگی ٹھیک نہیں ہے امام کی نماز بلاکراہت درست ہے اور گناہ مقتدیوں پر ہے۔
البتہ اگر امام صاحب کے اندرکوئی شرعی عیب اور نقص ہو توان کا مواخذہ ہوگا اورایسے شخص کو امام بنانا مکروہ ہے اور اس صورت میں مقتدی گناہ گار نہیں ہوں گے ۔
(القرأن الكريم :آل عمران: 103/3)
وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعٗا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ .
سنن أبي داود:(4/ 186 ، رقم الحدىث : 2533 ، ط: دار الرسالة العالمية )
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الجهاد واجب عليكم مع كل أمير، برا كان أو فاجرا، والصلاة واجبة عليكم خلف كل مسلم، برا كان أو فاجرا، وإن عمل الكبائر، والصلاة واجبة على كل مسلم، برا كان أو فاجرا، وإن عمل الكبائر.
الدرالمختار :(1/ 559، ط:دارالفكر)
ولو أم قوما وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريما لحديث أبي داود لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما وهم له كارهون (وإن هو أحق لا) والكراهة عليهم.
حاشية الطحطاوي:(ص302، ط:دارالكتب العلمية )
و" لذا كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه إلى الله تعالى ليحصل لهم مآربهم فيشفعون لكم أو بمعنى الوفود أي الرسل بينكم وبين ربكم والكلام على التشبيه .