سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے اپنا مکان بکر کو کرایہ پر دیا اور پھر زید نے مذکورہ مکان عمرو کو فروخت کردیا جب کہ مکان ابھی تک کرایہ دار کے پاس ہے البتہ عمرو نے زید کو مکمل ثمن ادا کردیا ہے ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ مذکورہ مکان کا کرایہ زید کو ملے گا یا عمرو کو ؟
وضاحت : سائل نے فون پر بتایا :کہ کرایہ دار کو بیع کا علم تھا اس نے بیع پر کوئی اعتراض نہیں کیا اس کا کہنا ہے کرایہ جس کا حق ہوگا میں اس کو دے دوں گا ، لیکن بائع با وجود ثمن وصول کرنے کے تنازع کررہا ہے کہ جب تک کرایہ کی مدت ختم نہیں ہوتی، اس وقت تک کرایہ میں لوں گا ۔
ذکرکردہ صورت میں چونکہ مؤجر(اجرت پر دینے والے)نے مکان مستأجر(اجرت پر لینے والے) کی اجازت سےبیچاہے، لہذا یہ بیع صحیح ہے ۔مشتری کی ملکیت اس مکان پر ثابت ہوجائے گی اور کرایہ کا مستحق مشتری ہوگا نہ کہ مؤجر۔
الشامية(528/4،ط:دارالفكر)
(وإذا وجدا لزم البيع) بلا خيار إلا لعيب أو رؤية خلافا للشافعي رضي الله عنه وحديثه محمول على تفرق الأقوال.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر:(677/1،ط: دار الجيل)
وقيل في المجلة بدون إذن المستأجر؛ لأن الآجر إذا باع المأجور بإذن المستأجر نفذ، ولو رخص المستأجر بيع المأجور من أحد الناس وباعه الآجر من غيره فالبيع يكون نافذا.... إذا باع أحد داره المأجورة من آخر وبعد مدة أخذ المشتري أجرة من المستأجر فالأجرة ملك للمشتري؛ لأن الإجارة مستقلة.