کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے متعلق کہ امتحان میں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح امتحان یا جاب کے لیے اپنی عمر کم لکھوانا شرعاً کیسا ہے؟
(1)امتحان کا اصل مقصد طالب علم کی علمی قابلیت اور فہم و فراست کی جانچ ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر اسے نمبرات، اسناد اور تعلیمی درجات دیے جاتے ہیں۔
امتحان میں نقل کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا محض ایک فریب ہے، جس کے ذریعہ کوئی شخص جھوٹے طور پر خود کو اہل ظاہر کرتا ہے، یہ عمل دراصل جھوٹ، خیانت اور جھوٹی گواہی کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتے ہیں۔
لہٰذا امتحان میں نقل کرنا یا کسی کو نقل کروانا شرعاً ناجائز اور سخت گناہ ہے، اس سے نہ صرف فرد کا اخلاقی و دینی نقصان ہوتا ہے، بلکہ معاشرے میں نااہل افراد کو مقام ملنے کا باعث بن کر اجتماعی فساد کا ذریعہ بنتا ہے۔
(2)واضح رہے کہ کسی بھی مقصد چاہے جاب ہو یا امتحانات کے لیے اپنی عمر کم لکھوانا جائز نہیں، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ دینا ہے، جو کہ شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔
*القرآن الکریم (النساء:58:4)*
قال اللہ تعالیٰ:إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.
*وأيضاً:(الانفال:58:8)*
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ.
*صحيح مسلم:(56/1،رقم الحديث:108،ط:دار طوق النجاة)*
حدثنا أبو بكر بن إسحاق ، أخبرنا ابن أبي مريم ، أخبرنا محمد بن جعفر قال: أخبرني العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب مولى الحرقة ، عن أبيه ، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: «من علامات المنافق ثلاثة: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان .»
*مرقاۃ المفاتیح:(126/1،ط: دارالفكر)*
فالكذب الاخبار على خلاف الواقع، وحق الامانة ان تؤدى الى اهلها، فالخيانة مخالفة لها، واخلاف الوعد ظاهر.