مولانا صاحب !
ایک مسئلہ ہے کہ ایک مہتمم کیلئے پیسے آتیں ہے وہ ایک طریقہ اختیار کرتا ہے وہ یہ کہ ایک طالب علم کو بلاتا ہے اور وہ سب پیسے اسکو حوالہ کرتے ہے اور پھر اس سے لیتے ہیں اگر چہ زکوۃ یا کوئی اور کام کے لیے کیوں نہ ہو اسکا معلومات فراہم فرمائے
پوچھی گئی صورت میں مھتمم کا مذکور عمل بظاہر حیلہ تملیک معلوم ہوتا ہے، اگر یہ مستحق کا حق باطل کرنے یا زکوة سے بچنے کے لیے کیا جائے تو یہ مکروہ تحریمی ہے البتہ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی وجہ سے حیلہ تملیک کرنے کی گنجائش ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں مہتمم کا مذکورہ حیلہ تملیک اگر مدرسے اور طلبہ کے ایسے مفاد میں ہو جس کے لیے زکوۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ دوسرا مال پورا نہ ہوتا ہو اور جس طالب علم سے تملیک کرائی جائے وہ قبضے کا معنی سمجھتا ہو اور اس کو مال کامکمل اختیار دیا جائے، پھر وہ اپنی رضامندی سے واپس کر دے تو اس کی گنجائش ہے۔
الشامیة:(257/2،ط:دار الفکر )
فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم.
الھندیة:(390/6،ط:دارالفکر)
الفصل الأول: في بيان جواز الحيل وعدم جوازها فنقول: مذهب علمائنا - رحمهم الله تعالى - أن كل حيلة يحتال بها الرجل لإبطال حق الغير أو لإدخال شبهة فيه أو لتمويه باطل فهي مكروهة وكل حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن حرام أو ليتوصل بها إلى حلال فهي حسنة، والأصل في جواز هذا النوع من الحيل قول الله تعالى ﴿وخذ بيدك ضغثا فاضرب به ولا تحنث﴾ [ص: ٤٤] وهذا تعليم المخرج لأيوب النبي - عليه وعلى نبينا الصلاة والسلام - عن يمينه التي حلف ليضربن امرأته مائة عود وعامة المشايخ على أن حكمها ليس بمنسوخ وهو الصحيح من المذهب كذا في الذخيرة.
البحر الرائق: (216/2،ط:دارالکتاب الاسلامی )
هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى.
الھندیة:(392/6،دارالفکر)
إذا أراد أن يكفن ميتا عن زكاة ماله لا يجوز (والحيلة فيه أن يتصدق بها على فقير من أهل الميت)، ثم هو يكفن به الميت فيكون له ثواب الصدقة ولأهل الميت ثواب التكفين، وكذلك في جميع أبواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد وبناء القناطر والرباطات لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه.