کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام !زید نے اپنے غریب بھائی کو ایک گائے دی، یہ کہہ کر کہ "جب یہ گائے بچہ دے دے تو وہ بچہ تمہارا ہوگا، اور گائے مجھے واپس لوٹا دینا۔"اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس طرح کا معاملہ شریعتِ مطہرہ کی رُو سے جائز ہے یا نہیں؟اس طرح کے لین دین کا شرعی حکم کیا ہے؟
اور موجودہ رواجی "پنڈوسی" یا "شریک داری" میں کوئی جائز صورت موجود ہے یا نہیں؟
بینوا توجروا۔
کسی شخص کو جانور اس شرط پر دینا کہ وہ اس کی پرورش کرے، چارہ کھلائے اور دیکھ بھال کرے اور بدلے میں جو بچہ پیدا ہو، وہ پرورش کرنے والے کا ہو،یہ معاملہ جائز نہیں اور اگر ہو چکا ہو تو اسے فوراً فسخ(ختم) کرنا لازم ہے۔
اگر فسخ (ختم) سے پہلے جانور کا بچہ پیدا ہو گیا ہو تو وہ بچہ اصل مالک کا شمار ہوگا، پرورش کرنے والے کو اس کی اجرتِ مثل (یعنی اس کام کی بازار میں جو قیمت دی جاتی ہے۔)دی جائے گی اور اگر چارہ اپنے خرچ پر خریدا ہو یا اپنی ملکیت سے کھلایا ہو تو اس کی قیمت بھی ادا کی جائے گی۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ جانور کا مالک پرورش کرنے والے شخص کو جانور کا آدھا حصہ فروخت کر دے، اس کے بعد دونوں شریک بن جائیں، پھر پرورش کی ذمہ داری ایک شریک لے اور جو خرچ آئے (چارہ وغیرہ)، وہ دونوں برابر، برابر برداشت کریں،اس صورت میں جانور سے حاصل ہونے والا نفع، مثلاً: بچہ، یا دودھ ،سب دونوں کے درمیان برابر تقسیم ہوں گے، بعد میں اگر شرکت ختم کرنا چاہیں تو کوئی ایک اپنا حصہ دوسرے کو بیچ دے، یا جانور بیچ کر رقم آپس میں تقسیم کرلیں۔
المحيط البرهاني:(43/6،ط: دارالکتب العلمیة)*
ولو أن رجلًا دفع دابة إلى رجل ليؤاجرها؛ على أن ما آجرها من شيء، فهو بينهما نصفان، فهذه الشركة فاسدة، والأجر كله لرب الدابة، وللذي آجرها أجر مثل عمله.
*ايضاً:*
والحيلة أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل، ونصف الدجاجة ونصف بذر العلق بثمن معلوم حتى تصير البقرة وأجناسها مشتركة بينهما، فيكون الحادث منهما على الشركة.
*بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (6/ 62،ط: دار الكتب العلمية)*
لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع.
*الھندیة:(335/2،ط: دار الفكر )*
وعلى هذا إذا دفع البقرة إلى إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين فما حدث فهو لصاحب البقرة ولذلك الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فيما قام عليها .