السلام علیکم !
ایک عورت جس کا شوہر فوت ہوگیا ہے اور اس کی پانچ بیٹیاں اور ایک چھوٹا بیٹا ہے، ان کے پاس مال کچھ زمین ہے اور تقریباً 10.120ہزار کسی دکان وغیرہ سے آتےہیں اور دیور 10000 10000 ہزار روپے دیتے ہیں تو ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ زکوٰۃ کا دارومدار ماہانہ یا سالانہ آمدن نہیں، بلکہ زکوٰۃ اسی شخص کو دی جاسکتی ہے جس کے پاس اپنی ضروریاتِ زندگی کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال یا سامان موجود نہ ہو، اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد مکان، پلاٹ یا اتنی مالیت کی رقم ہو تو وہ شرعاً زکوٰۃ کا مستحق نہیں رہتا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر بیوہ کے پاس حاجتِ اصلیہ سے زائد پلاٹ یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مالیت ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے،لیکن اگر ذکر کردہ بیوہ کے پاس بقدرِ نصاب مالیت موجود نہ ہو تو ماہانہ آمدنی جتنی بھی ہو، اس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔
الشامية:(340/2،ط: دارالفكر)*
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي ومنقطع الحج.
*الهندية:(189/1،ط:دارالفكر )*
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من:النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية.
*البحر الرائق:(260/2،ط:دارالكتاب الإسلامي)*
لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي والمنقطع لقوله عليه السلام ويجوز دفع الزكاة لطالب العلم، وإن كان له نفقة أربعين سنة اهـ.