السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک مسئلے کے متعلق وضاحت چاہیے تھی کہ دو بھائیوں نے ایک کمیٹی ڈالی، جس کی مجموعہ رقم دو لاکھ بیس ہزار روپے تھی اور ایک بھائی کے حصے میں ایک لاکھ دس ہزار روپے آنے تھے، کمیٹی کا جو دورانیہ تھا وہ تقریبا 35 مہینے تھا تو اس میں زکوۃ کا کیا حکم ہے؟
اور دوسرا یہ کہ جو کمیٹی ڈالی جاتی ہے چاہے وہ پانچ سال کی ہو 10 سال کی ہو یا اس سے کم ہو تو اس میں زکوۃ ہوگی یا نہیں ہوگی ؟
براہ کرم وضاحت فرما دیں جزاکم اللہ خیر
(بی سی )کمیٹی میں جتنی رقم(قسطیں) جمع کروائی جا چکی ہے، اگر وہ رقم تنہا یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر زکاۃ کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جاتی ہے تو اس رقم کی زکاۃ ادا کی جائے گی، مثلاً: ایک شخص کمیٹی میں چالیس ہزار ادا کر چکا ہے اور وہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو زکاۃ اداکرتے وقت چالیس ہزار کی رقم کو بھی شامل کرکے زکاۃ ادا کی جائے گی اور اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب نہیں اور کمیٹی میں جمع کردہ رقم زکاۃ کے نصاب کے برابر نہیں تو اس رقم پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں دونوں بھائیوں میں سے جو بھائی صاحب نصاب ہو وہ زکوٰۃ ادا کرتے وقت اپنے حصے کی جمع کروائی گئی رقم بھی نصاب میں شامل کر لے اور جو پہلے سے صاحب نصاب نہیں اور نہ ہی کمیٹی میں جمع شدہ رقم اور اپنی ملکیت میں موجود دوسری رقم ملا کر صاحب نصاب بن سکتا ہو تو اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔
الدرالمختار:(2/305،ط: دارالفکر)*
"إنّ الدیون عند الإمام ثلاثة: قوي و متوسط و ضعیف، فتجب زکاتھا إذا تمّ نصابًا و حال الحول لکن لافورًا، بل عند قبض أربعین درهمًا من الدین القوي کقرض وبدل مال تجارۃ، فکلّما قبض أربعین درهمًا یلزمه درھم الخ
*الهندية:(1/ 172،ط: دارالفکر)*
"(ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا -رحمهم الله تعالى-: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض و ثمن البيع و ضمان المتلفات و أرش الجراحة، و سواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد، وهو حال أو مؤجل أو لله - تعالى - كدين الزكاة ... تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبًا كان أو لم يكن مصوغًا أو غير مصوغ حليًّا كان للرجال أو للنساء تبرًا كان أو سبيكةً، كذا في الخلاصة.
*الفقه الاسلامي وادلته:(1831/3،ط: دارالفکر)*
وقال الصاحبان: الدیون كلها سواء وكلها قویه تجب الزكوٰة فیها قبل القبض (إلی قوله) لان تلك الدیون ما عدا الدیه ملك لصاحبها لا یطالب بالاداء للحال وانما عند القبض.