السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ عرض کرنا ہے کہ امام نے نماز پڑھائی قرآت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد تین آیتیں تلاوت کیں،پھر آگے بھول جانے کی وجہ سے کسی اور جگہ سے تلاوت کرلی (پہلی صورت یہ ہے) دوسری صورت یہ ہے کہ امام نے سورۃ الفاتحہ کے بعد دو آیتیں تلاوت کیں، پھر کسی اور مقام سے تلاوت شروع کرلی اب ما قبل دونوں صورتوں کا حکم کیا ہے؟ کس صورت نماز درست ہے؟کس میں سجدہ سہو ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔جزاک اللّٰہ خیر
واضح رہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد واجب قرأت کم از کم تین چھوٹی یا ایک بڑی آیت کے برابر ہے، اگر امام تین آیتیں پڑھنے کے بعد آگے قرأت بھول جائے اور یاد نہ آنے پر رکوع کر کے نماز مکمل کر لے تو اس صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں، کیونکہ واجب قرأت ادا ہو چکی ہے۔
البتہ اگر تین آیتوں سے کم مقدار پڑھی ہو اور آگے بھول جائے تو ایسی صورت میں امام کو چاہیے کہ قرآن مجید میں کسی اور مقام سے قرأت کرے، تاکہ واجب قرأت پوری ہو جائے،لہٰذا پوچھی گئی دونوں صورتوں میں چونکہ امام نے کسی دوسری جگہ سے قرأت مکمل کرلی ہے، اس لیے سجدہ سہو کرنا لازم نہیں۔
الهندية:(82/1،ط: دارالفكر)
إن أراد أن يقرأ فاتحة الكتاب والسورة ثم نسي قراءته فأراد أن يقرأ فلما قال أل تذكر أنه قد كان قرأ فترك ذلك وركع أو ذكر بعض الكلمة وترك تلك الكلمة وذكر كلمة أخرى ففي هذه الصور كلها أو ما شاكلها تفسد صلاته عند بعض المشايخ وبه كان يفتي الإمام شمس الأئمة الحلواني ومن المشايخ من قال إن ذكر شطر كلمة لو ذكر كلها يوجب ذلك فساد الصلاة فذكر شطرها يوجب فساد الصلاة وإن ذكر شطر كلمة لو ذكر كلها لا يوجب الفساد فذكر شطرها لا يوجب الفساد....ومنهم من قال إن كان لما ذكر من الشطر وجه صحيح في اللغة ولا يكون لغوا ولا يتغير به المعنى ينبغي أن لا يوجب فساد الصلاة .
وفيه أيضاً:(126/1،ط: دارالفكر)
ولا يجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي.
الشامية:(623/1،ط: دارالفكر)
يكره أن يفتح من ساعته كما يكره للإمام أن يلجئه إليه، بل ينتقل إلى آية أخرى لا يلزم من وصلها ما يفسد الصلاة أو إلى سورة أخرى أو يركع إذا قرأ قدر الفرض كما جزم به الزيلعي وغيره وفي رواية قدر المستحب كما رجحه الكمال بأنه الظاهر من الدليل.