السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
تہجد اور دن میں نفل نماز میں بلند آواز سے قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ اگر پڑھ سکتے ہیں تو تکبیرات بھی بلند آواز سے کہے یا آہستہ آواز سے؟ اور اگر پڑھتے پڑھتے درمیان میں کوئی آیت چھوٹ جائے یا کوئی آیت غلط پڑھ لی جس سے نماز فاسد ہو جاتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ رات کے وقت نفل نماز (مثلاً تہجد وغیرہ) میں اختیار ہے ،چاہے آہستہ آواز سے قرأت کرے یا بلند آواز سے، بشرطیکہ کسی سوئے ہوئے یا نماز پڑھنے والے کو تکلیف نہ ہو، جبکہ دن کے وقت نفل نماز میں آہستہ آواز سے قرات کرنا افضل ہے، تاہم اگر بلند آواز سے قرات کرے تو بھی جائز ہے۔
نفل نماز میں تکبیرات (تکبیر تحریمہ اور رکوع و سجدہ کی تکبیرات) اتنی آواز میں کہنا کافی ہے کہ خود سن لے،
اگر نماز میں کوئی ایسی آیت رہ جائے یا ایسی غلطی ہو جس سے معنی میں فساد لازم ہوتا ہےتو نماز فاسدہوجائے گی اور اسے دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا، لیکن اگر غلطی ایسی ہو کہ جس سے معنی نہ بدلے یا تھوڑی سی آیت رہ جائے جس سے مفہوم پر اثر نہ پڑے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
العناية شرح الهداية:(327/1،ط: دار الفكر)*
وفي التطوع بالنهار يخافت وفي الليل يتخير اعتبارا بالفرض في حق المنفرد، وهذا لأنه مكمل له فيكون تبعا.
*مراقي الفلاح:(95/1،ط: المكتبة العصرية)*
«و» يجب «الإسرار» وهو إسماع النفس في الصحيح وتقدم «في» جميع ركعات «الظهر والعصر» ولو في جمعهما بعرفة «و» الإسرار «فيما بعد أوليي العشاءين» الثالثة من المغرب وهي والرابعة من العشاء «و» الإسرار في «نفل النهار» للمواظبة على ذلك.
*الهندية:(72/1،ط: دارالفكر)*
(سننها) رفع اليدين للتحريمة، ونشر أصابعه، وجهر الإمام بالتكبير، والثناء، والتعوذ، والتسمية، والتأمين سرا، ووضع يمينه على يساره تحت سرته، وتكبير الركوع.
*الهندية :(81/1،ط: دارالفكر)*
أما إذا غير المعنى بأن قرأ «إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم شر البرية إن الذين كفروا من أهل الكتاب» إلى قوله «خالدين فيها أولئك هم خير البرية» تفسد عند عامة علمائنا وهو الصحيح. هكذا في الخلاصة.