بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میری صورتحال:
میرے والد صاحب نے کچھ دن پہلے میری والدہ کو طلاق دی ہے۔ اس کے پیچھے یہ واقعہ ہے کہ میری والدہ بہت غصے میں آگئیں اور انہوں نے اپنے آپ کو موبائل فون سے مارنا شروع کر دیا۔ اس حالت میں انہوں نے میرے والد سے کہا “مجھے طلاق دو، مجھے طلاق دو”۔ میرے والد نے جواب میں تین بار کہا “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”۔
میرے والد صاحب ذہنی طور پر مریض ہیں۔ وہ ہر چیز یاد رکھتے ہیں اور کھانا بھی کھاتے ہیں، لیکن کبھی کبھی بھول جاتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہو رہے ہیں اور خاندانی مسائل کی وجہ سے دن بہ دن کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
میں انہیں ایک مفتی صاحب کے پاس لے گیا۔ مفتی صاحب نے میرے والد سے پوچھا کہ کیا آپ کو یاد ہے کہ یہ آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا “ہاں، یہ میرا بیٹا ہے”۔ پھر مفتی صاحب نے پوچھا کہ کیا آپ کو وہ تین الفاظ یاد ہیں جو آپ نے کہے تھے؟ انہوں نے کہا “ہاں، مجھے یاد ہے”۔ اس پر مفتی صاحب نے کہا کہ اس صورت میں یہ طلاق ہے۔
لیکن میرا یقین یہ ہے کہ میرے والد صاحب کی نفسیاتی جانچ ہونی چاہیے کیونکہ وہ پوری زندگی خود سے دوائیاں لیتے رہے ہیں، زیادہ مقدار میں۔ میں انہیں تین چار بار ماہر نفسیات کے پاس لے گیا ہوں۔ وہ کسی قسم کے خوف میں مبتلا ہیں، باہر نہیں نکلتے، کچھ نہیں کھاتے، بنیادی طور پر ذہنی طور پر مستحکم نہیں ہیں اور بہت کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
میرے والد صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے میری والدہ کو طلاق دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ وہ دباؤ میں تھے اور اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے یہ تین الفاظ کہہ دیے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ کہیں والدہ اپنے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا لیں۔
میرا سوال:
اس پوری صورتحال کو دیکھتے ہوئے، کیا یہ طلاق شرعی طور پر نافذ ہے؟ کیا والد صاحب کی ذہنی حالت اور مجبوری کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے میں کوئی گنجائش ہے؟ برائے کرم اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔
ایسا ذہنی مریض جس کا مرض معروف اورماہر ڈاکٹروں سے تصدیق شدہ ہو، اگر اپنی بیوی کو عقل اور حواس برقرار ہوتے ہوئے اور طلاق کے الفاظ اور معنی سمجھتے ہوئے طلاق دے (چاہے مجبوری ہو یاعام حالت، طلاق دینے کا ارادہ ہو یانہ ہو ) تو ایسے شخص کی طلاق واقع شمار ہوگی اور اگر مرض کی وجہ سے عقل اور حواس کھو بیٹھے ،طلاق کے الفاظ اورمعنی سمجھے بغیر طلاق دے دےاور ٹھیک ہونے کے بعد اس کو طلاق کاکچھ بھی علم نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوگی، لہذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ سائل کے والد نے طلاق کے الفاظ اور معنی کو سمجھتے ہوئے تین طلاقیں دی ہیں ،جیسا کہ وہ خودبھی طلاق دینے اقرار کررہاہے ،لہذا تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور اب نکاح ختم ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ تین طلاقیں واقع ہونے کی صورت میں شوہر کو عدت کے دوران رجوع کا حق نہیں رہتا اور نہ ہی عدت کے بعد وہ دونوں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، جب تک عورت کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوقِ زوجیت ادا نہ کرے،پھر اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے یا وہ وفات پا جائے اور اس کی عدت مکمل ہو جائے تو اس کے بعد عورت اور پہلا شوہر دونوں کی رضا مندی سے، نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں، دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
صحیح البخاری: (45/7، ط: دار طوق النجاة )
وقال علي ألم تعلم أن القلم رفع عن ثلاثة عن المجنون حتى يفيق وعن الصبي حتى يدرك وعن النائم حتى يستيقظ وقال علي وكل الطلاق جائز إلا طلاق المعتوه
سنن الترمذی: (رقم الحدیث 1291، ط: دار الغرب الاسلامی )
حدثنا محمد بن عبد الأعلى الصنعاني، قال: أنبأنا مروان بن معاوية الفزاري ، عن عطاء بن عجلان، عن عكرمة بن خالد المخزومي ، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: «كل طلاق جائز، إلا طلاق المعتوه» المغلوب على عقله.
الدرالمختار : ( 3 / 235 ، ط: دار الفكر )
ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق
بدائع الصنائع : (101/3، 6،ط : دار الكتب العلمية)
صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها.