السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب! میرے دوست نے بتایا کہ میزان بینک میں اپنے پیسے رکھوا کر اس پے منافع ملتا ہے وہ جائز ہے اور کہتا ہے کہ اس پر مفتی تقی عثمانی صاحب کا بیان بھی موجود ہے جس میں انہوں نے جائز قرار دیا ہے ۔ مہربانی فرما کر اس پر نظر ثانی کریں کہ وہ کونسا طریقہ ہے کہ پیسوں پر منافع مل رہا ہو اور پیسے بھی سیو ہوں؟
ہماری تحقیق کے مطابق میزان بینک میں رکھی گئی رقم کے ذریعے، اسلامی اصولوں کے مطابق لین دین (Transactions) ہوتا ہے، لہذا میزان بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروانا اور اس پر نفع لینا جائز ہے، تاہم اگر کوئی شخص خود کام کر سکتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ خود تجارت کرے۔
نیز اس کے علاوہ دوسرے جائز ذرائع سے بھی نفع حاصل کیا جا سکتا ہے مثلاً: اسٹاک ایکسچینج یا المیزان انویسٹمنٹ میں بھی رقم انویسٹ کی جا سکتی ہے ۔
دلائل:
البحرالرائق:(280/5،ط: دارالکتاب الاسلامی)
"وأما شرائط المعقود عليه فأن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه وأن يكون مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم...وخرج بقولنا وأن يكون ملكا للبائع ما ليس كذلك فلم ينعقد بيع ما ليس بمملوك له، وإن ملكه بعده."
الهندية:(301/2،ط: دارالفکر)
"أما شركة العقود فأنواع ثلاثة: شركة بالمال، وشركة بالأعمال وكل ذلك على وجهين: مفاوضة وعنان، كذا في الذخيرة. وركنها الإيجاب والقبول وهو أن يقول أحدهما: شاركتك في كذا وكذا ويقول الآخر: قبلت، كذا في الكافي، ويندب الإشهاد عليها، كذا في النهر الفائق. وشرط جواز هذه الشركات كون المعقود عليه عقد الشركة قابلا للوكالة، كذا في المحيط وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع. وحكم شركة العقد صيرورة المعقود عليه وما يستفاد به مشتركا بينهما، كذا في محيط السرخسي."