کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی کو وضو کے فرائض کا علم نہ ہو اور اس نے اس طرح ناقص وضو سے تقریبا دس سال نمازیں پڑھی ہو تو اب ان دس سالوں کے نمازوں کا کیا حکم ہے آیا ان کی قضاء لازم ہے یا اس بندے کے لیے کوئی رخصت ہے ؟
واضح رہے کہ اسلامی مملکت کے اندر رہتے ہوئے ہر مسلمان پر اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے جس سے اس کو فرائض اور حلال وحرام ،جائز وناجائز کی تمیز ہوسکے۔اسلامی مملکت میں رہنے والوں کے لیے یہ عذر بالکل بھی قابل قبول نہیں کہ اسے وضو کے فرائض کا علم نہیں تھا ۔
پوچھی گئی صورت میں بغیروضو کے پڑھی گئی نمازیں ادا نہیں ہوئی،انہیں دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
(المائدة5: 6)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا قُمۡتُمۡ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغۡسِلُواْ وُجُوهَكُمۡ وَأَيۡدِيَكُمۡ إِلَى ٱلۡمَرَافِقِ وَٱمۡسَحُواْ بِرُءُوسِكُمۡ وَأَرۡجُلَكُمۡ إِلَى ٱلۡكَعۡبَيۡنِۚ.
سنن الترمذي:( رقم الحديث 1،ط: دار الغرب الإسلامي)
عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا تقبل صلاة بغير طهور .
الشامية :(1/ 401، ط:دارالفكر)
ولا يخفى أن هذه الأقسام متداخلة وبينها عموم وخصوص مطلق، فتجتمع في الطهارة والستر والاستقبال فإنها من حيث اشتراط وجودها في ابتداء الصلاة شرط انعقاد .
الهندية:(1/ 58، ط:دارالفكر)
تطهير النجاسة من بدن المصلي وثوبه والمكان الذي يصلي عليه واجب.
الفقه الإسلامي وأدلته :(1/ 728، ط:دارالفكر)
يشترط لصحة الصلاة: الإسلام والتمييز والعقل، كما يشترط ذلك لوجوب الصلاة، فتصح الصلاة من المميز، لكن لا تجب عليه، وهناك أحد عشر شرطاً أخرى متفق عليها بين الفقهاء: وهي دخول الوقت، والطهارة عن الحدثين، والطهارة عن النجس، وستر العورة، واستقبال القبلة، والنية، والترتيب في أداء الصلاة، وموالاة فعلها، وترك الكلام إلا بما هو من جنسها أو من مصالحها، وترك الفعل الكثير من غير جنس الصلاة، وترك الأكل والشرب
سوشل میڈیا پر اللہ تعالیٰ کا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شئیر نہ کرنے پر کسی کو بددعا دینا
یونیکوڈ 0