السّلام علیکم کیا فرماتےہے مفتیان کِرام اس مسلےکےبارےمیں کہ ایک شخص کا اپریشن ھواہے ڈاکٹر نے اسکو نہانے سے منع کیا ہے اب اس پر غسل واجب ہوگئ ہے اس صورت میں وہ کیا کرے کیا وہ پورے جسم کو گیلے کپڑے کے ساتھ دھوکر اور جو زخم والی جگہ ہے اس پر تیمم کرسکتا ہے رہنمائ فرماۓ جزاک اللہ
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ غسل کے لیے شرط یہ ہے کہ پورے جسم پر پانی بہایا جائے، صرف جسم کو گیلا کر لینا کافی نہیں، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ طریقہ شرعی غسل کے لیے کافی نہیں ہے، غسل سے پہلے جہاں نجاست لگی ہوئی ہو، اسے پاک کرنا ضروری ہے، اس کے بعد زخم والی جگہ کو چھوڑ کر پورے بدن پر پانی بہانا لازم ہے۔ اگر زخم پر پٹی بندھی ہو تو اس پر مسح کرنا کافی ہے۔ البتہ اگر پانی کا استعمال کسی بھی طرح نقصان دہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز ہوگا۔
دلائل:
حاشية ابن عابدين:(1/ 102،ط: دارالفکر)
" [فروع] في أعضائه شقاق غسله إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه ولو بيده، و لايقدر على الماء تيمم، و لو قطع من المرفق غسل محل القطع.
(قوله: شقاق) هو بالضم. وفي التهذيب قال الليث: هو تشقق الجلد من برد أو غيره في اليدين والوجه: وقال الأصمعي: الشقاق في اليد والرجل من بدن الإنسان والحيوان، وأما الشقوق فهي صدوع في الجبال والأرض. وفي التكملة عن يعقوب: يقال بيد فلان شقوق ولا يقال شقاق؛ لأن الشقاق في الدواب: وهي صدوع في حوافرها وأرساغها مغرب.
(قوله: وإلا تركه) أي وإن لم يمسحه بأن لم يقدر على المسح تركه.(قوله: ولا يقدر على الماء) أي على استعماله لمانع في اليد الأخرى، ولا يقدر على وضع وجهه ورأسه في الماء".
البحر الرائق:(1/ 147،ط: دارالکتاب الاسلامی)
"(قوله: أو لمرض) يعني يجوز التيمم للمرض وأطلقه، و هو مقيد بما ذكره في الكافي من قوله بأن يخاف اشتداد مرضه لو استعمل الماء فعلم أن اليسير منه لايبيح التيمم، و هو قول جمهور العلماء إلا ما حكاه النووي عن بعض المالكية، و هو مردود بأنه رخصة أبيحت للضرورة و دفع الحرج، و هو إنما يتحقق عند خوف الاشتداد و الامتداد و لا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري أو كأن لايجد من يوضئه و لايقدر بنفسه اتفاقًا.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی