مفتی صاحب!
اگر کسی کے پاس صرف سائمہ جانور ہوں نصاب کے بقدر یا اس سے کم مثلا ٣٠بکریاں ہوں یا چالیس، اس کے علاوہ اس کے پاس ضرورت سے زائد کچھ نہ ہو تو کیا وہ صدقہ فطر کے نصاب میں شمار ہو گا کہ نہیں؟
جانوروں کا سائمہ ہونا (یعنی سال کے اکثر حصہ میں گھر کے باہر جنگل وغیرہ میں چرنا) صرف زکوۃ کے وجوب کے لیے شرط ہے، صدقہ فطر کے نصاب میں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، لہذا اگر جانور ضرورت سے زائد ہوں تو بہر صورت اس کی قیمت کا اعتبار کرکے صدقۂ فطر کے نصاب میں شمار کیا جائے گا، خواہ جانور سائمہ ہوں یا نہ ہوں۔
*الھدایة:(1/ 113،ط:دار احياء التراث العربي)*
صدقة الفطر واجبة على الحر المسلم إذا كان مالكا لمقدار النصاب فاضلا عن مسكنه وثيابه وأثاثه وفرسه وسلاحه وعبيده.
*الھندیة: (292/5، ط: دار الفکر)*
والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره.